کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 270
مصر:
سیّدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصر فتح کیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو وہاں کا گورنر مقرر کیا اور باوجودیکہ چند ایک معاملات میں کبھی کبھار انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کی مرضی کے خلاف کام کیا جس کے نتیجہ میں عمر رضی اللہ عنہ کو ان پر تادیبی کارروائی کرنا پڑی تاہم وہ عمر رضی اللہ عنہ کی پوری مدت خلافت میں وہاں کے گورنر رہے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مصر کے گورنر جنرل تھے اور آپ کی ماتحتی میں مصر کے مختلف علاقوں پر چھوٹے چھوٹے امراء و گورنر ان مقرر تھے، جیسے کہ عبداللہ بن سعد بن ابی اسرح رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ خلیفۂ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت مصر کے علاقہ ’’الصعید‘‘ پر والی مقرر تھے۔[1] (مزید تفصیل ملاحظہ ہو، سیرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، ص: ۵۰۴)
(۲)…دور فاروقی میں گورنران ریاست کی تقرری
سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ والیان ریاست کے انتخاب اور ان کی تقرری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کی پیروی کرتے تھے۔ چنانچہ اس منصب پر انہی لوگوں کو فائز کرتے تھے جو باصلاحیت، امانت دار اور فرائض منصبی کی ادائیگی میں سب سے بہتر ہوں ۔ تقرری کا مسئلہ ہو یا معزولی کا، دونوں مواقع پر بھرپور چھان بین کرتے تھے، ایسے آدمی کو عہدہ ہرگز نہیں دیتے تھے جو اس کا خواہاں ہو۔ گورنرں کی تقرری کو ایک امانت سمجھتے تھے جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر عہدہ کے لیے وہی لوگ سب سے زیادہ مستحق ہیں جو اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں ومناسب ہوں ۔ اگر بلا کسی معقول عذر کے باصلاحیت فرد کو چھوڑ کر اس سے ادنیٰ درجہ کے آدمی کو مقرر کیا گیا تو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے ساتھ خیانت ہے۔[2] اس سلسلے میں آپ کے چند ایک اقوال زریں ہیں ، مثلاً: ’’میں اپنی امانت اور عہدہ کا ذمہ دار ہوں ، میرے دل میں جو خیالات آتے ہیں اس کو ان شاء اللہ میں جانتا ہوں ، اسے دوسروں کے حوالہ نہیں کروں گا اور جو (باتیں ) مجھ سے دور ہیں انہیں میں امانت داروں اور امت مسلمہ کے خیر خواہوں کے ذریعہ ہی سے جان سکتا ہوں ، ان (امانت داروں اور خیر خواہوں ) کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنی امانت نہیں دوں گا۔‘‘[3]
اور فرمایا: ’’جس نے کسی آدمی کو کسی جماعت کا ذمہ دار بنایا حالانکہ کہ اس جماعت میں اس سے بہتر اور اللہ ترس آدمی موجود ہے تو اس نے اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی۔‘‘[4]
نیز فرمایا: ’’جو شخص مسلمانوں کا حکم بنایا گیا اور اس نے کسی قرابت داری یا ذاتی محبت کی بنا پر کسی کو عہدہ دیا اس نے اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی۔‘‘[5]
[1] فتوح مصر: ص ۱۷۳۔
[2] وقائع ندوۃ النظم الإسلامیۃ: ۱/۲۹۵، ۲۹۶۔
[3] دورالحجاز فی الحیاۃ السیاسیۃ: ص: ۲۵۵۔
[4] الفتاوٰی : ۲۸/۴۲۔
[5] الفتاویٰ : ۲۸/۱۳۸۔