کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 269
رہے، لیکن اس وقت آپ کا دل جذبہ جہاد سے معمور تھا، چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس اس سلسلہ میں خط لکھا اور جہاد میں شرکت کی اجازت مانگی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تو آپ کو معزول نہیں کرسکتا، البتہ آپ باشندگان طائف میں سے جسے اپنا نائب مناسب سمجھیں بنالیں اور پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بعد میں عثمان رضی اللہ عنہ کو عمان اور بحرین کا گورنر مقرر کیا۔[1]
تاریخی روایات میں یہ بات ملتی ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جب وفات ہوئی تو اس وقت سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ وہاں کے گورنر تھے۔ [2] ان کے اور امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے درمیان شہد، میوہ جات اور سبزیوں سے زکوٰۃ لینے کے متعلق خط و کتابت ہوتی رہتی تھی، [3] جو اس بات کی دلیل ہے کہ دور فاروقی میں طائف زرعی پیداوار کی فراوانی اور بکثرت کھیتیوں والا شہر تھا۔ آپ کے عہد میں طائف اور اس کے قرب و جوار کے شہروں کو استحکام اور خوشحالی نصیب تھی۔ مکہ کے لوگ گرمی کے موسم میں یہاں خوشگوار فضا کے مزے لینے آیا کرتے تھے۔[4] اس طرح دور فاروقی میں اسلامی سلطنت کے اہم شہروں میں طائف کا شمار ہوتا رہا۔[5]
یمن:
عمر فاروق رضی اللہ عنہ جس وقت مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے اس وقت یمن خوشحال اور امن و استقرار کی دولت سے مالا مال تھا۔ اس کے مختلف علاقوں اور اطراف میں پھیلے ہوئے امراء و افسران کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے وہاں کا انتظام و انصرام بھی کافی بہتر تھا۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ افسران کو یمن میں بھی ان کے مناصب پر باقی رکھا۔[6]
یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ جو ابوبکر صدیق کے مقرر کردہ یمن کے گورنر تھے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یمن کے گورنر تھے، جن کا نام آپ کے دور میں خوب روشن ہوا۔
بحرین:
جس وقت سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اس وقت سیّدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ بحرین کے گورنر تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ابتدائی ایام خلافت میں ان کو ان کے منصب ولایت پر راجح قول کے مطابق ۱۴ہجری تک باقی رکھا۔[7]
[1] تاریخ خلیفۃ بن خیاط، ص:۱۳۴۔
[2] تاریخ الطبری: ۵/۲۳۹۔
[3] الطائف فی العصر الجاہلی و صدر الإسلام، نادیۃ حسین صقر، ص:۱۹۔
[4] الطائف فی العصر الجاہلی و صدر الإسلام، نادیۃ حسین صقر، ص:۱۹۔
[5] الولایۃ علی البلدان:۱/۶۹۔
[6] غایۃ الأمانی فی اخبار القطر الیمانی، یحییٰ الحسین:۱/۸۳۔
[7] الولایۃ علی البلدان: ۱/ ۷۵۔