کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 267
تجھے طلاق، طلاق، طلاق یا تجھے طلاق، پھر طلاق، پھر طلاق، یا یوں کہا جائے کہ تجھے طلاق ہے، تین، دس، سو، یا ہزار طلاقیں ، یا اس طرح کی کوئی بھی تعبیر اختیار کی جائے، یہ مسئلہ حاکم کے اجتہاد پر موقوف ہے۔ وقت اور زمانہ کے مفاد کی رعایت کرتے ہوئے جیسا مناسب سمجھے فیصلہ کرے۔ انہیں تین طلاق شمار کرے یا ایک طلاق، طلاق رجعی۔ [1]
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : (مسئلہ طلاق میں ) عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے متقدمین (صحابہ کرام) کے اجماع کی مخالفت نہیں کی، بلکہ اس معاملہ میں عجلت کرنے والوں کے لیے بطور سزا تینوں طلاقیں نافذ کر دینا مناسب سمجھا، کیونکہ بلا کسی شرعی وجہ جواز کے طلاق دینے کی حرمت سب کو معلوم تھی۔ تاہم ان میں اس کا عام چلن ہوتا جا رہا تھا اور بلاشبہ ان حالات میں ائمہ وقت (حکام) کو یہ اختیار ہے کہ لوگ جس مشقت کو خود مول لینے پر تلے ہوئے ہوں اور اللہ کی نرمی و رخصت قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں وہ انہیں اسی کا پابند کر دے۔ [2]
[1] الفقہاء فی عہد عمر بن الخطاب: ۲/ ۷۳۶، ۷۳۹۔
[2] زاد المعاد: ۵/ ۲۷۰۔ طلاق سے متعلق سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کارروائی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ کا موقف ہی راجح ہے کہ یہ ایک تعزیری اقدام تھا، تاکہ لوگ ایک ساتھ ایک سے زیادہ طلاق دینے سے باز آجائیں اور حاکم کو اس طرح تعزیری قانون نافذ کرنے کا اختیار ہے شریعت نے حاکم کو اس کا حق دیا ہے۔ (مترجم)