کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 266
۳: نافع بن عمیر بن عبدیزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی سہیمیہ کو طلاق بتہ دے دی اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم میں نے اس سے صرف ایک طلاق کی نیت کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( وَاللّٰہِ! مَا اَرَدْتَّ اِلَّا وَاحِدَۃً؟))
’’اللہ کی قسم! کیا یقینا تم نے ایک ہی کی نیت کی تھی؟‘‘
رکانہ نے جواب دیا:
’’قسم اللہ کی، میں نے ایک ہی کی نیت کی تھی۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی کو ان کے پاس واپس کر دیا۔ اور رکانہ نے پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اپنی بیوی کو دوسری طلاق اور عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں تیسری طلاق دی۔ [1]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رکانہ نے اپنی بیوی کو ’’طلاق بتہ‘‘ دے دی اور کہا کہ میری نیت ایک طلاق دینے کی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس بات پر قسم لی کہ کیا واقعتاتم نے ایک ہی کی نیت کی تھی؟ اور جب انہوں نے قسم کھا لی تو آپ نے ان کی بیوی کو ان کے پاس واپس کردیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلفیہ بیان لینا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ’’طلاق بتہ‘‘ سے انہوں نے تینوں طلاقوں کی نیت کی ہوتی تو وہ واقع ہوجاتیں ، ورنہ نیت پر حلفیہ بیان لینے کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔ بہرحال مذکورہ دلائل وامثال کی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے طلاق سے متعلق مذکورہ اقدام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں کیا تھا،اور ایک لفظ میں تین طلاقوں کو تین شمار کرکے آپ نے اپنی طرف سے کوئی بدعت ایجاد نہیں کی۔ نیز واضح رہے کہ آپ کے اس اقدام کی توثیق وتائید کرنے والے عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود اور عمران بن حصین جیسے بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے اور ان سے اس سلسلہ میں کئی کئی روایات وارد ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ ایک لفظ میں یا متعدد الفاظ میں تین طلاقیں دینا مثلاً اس طرح کہا جائے کہ تجھے تین طلاق، یا
[1] سنن أبی داؤد، باب فی البتۃ: ۱/ ۵۱۱، رقم الحدیث: ۲۲۰۶۔ امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ جریج کی سند سے آئی ہوئی روایت جس میں ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے دی تھیں اس کے مقابلے میں یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ اس حدیث کو نقل کرنے والے رکانہ کے اہل خانہ ہیں اور وہ واقعہ سے زیادہ آگاہ ہیں ۔ امام نووی کا کہنا ہے کہ دوسری روایت جس میں ہے کہ رکانہ نے تین طلاقیں دی تھیں ، پھر اس کو ایک شمار کیا تھا، سو یہ روایت ضعیف ہے، اس میں مجہول راوی ہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ’’طلاق بتہ‘‘ دی تھی، اور ’’بتہ‘‘ کا لفظ ایک اور تین دونوں کو محتمل ہے۔‘‘ شرح النووی: ۱۰/۷۱۔ یہ روایت ضعیف ہے۔ اس کی سند میں نافع بن عجیر ہیں ابن حبان کے علاوہ کسی نے ان کی توثیق نہیں کی ہے اور ابن قیم نے انہیں مجہول قرار دیا ہے۔ زاد المعاد: ۲/ ۲۶۳۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل: ۲/ ۱۴۷۔