کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 265
ان سے ابن شہاب نے اور ان سے ابن مسیب نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قبیلۂ اسلم کے ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ۔ اس سے چند صحابہ نے کہا: تمہیں اسے لوٹانے کا اختیار ہے۔ چنانچہ اس کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میرے شوہر نے ایک ہی کلمہ میں تین طلاقیں دے دی ہیں ، (اب میں کیا کروں ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
(( قَدْ بَنْتِ مِنْہُ وَلَا مِیْرَاثَ بَیْنَکُمَا۔)) [1]
’’تم اس سے جدا ہوگئی، تم دونوں کے درمیان کوئی میراث نہیں ۔‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلمہ میں دی جانے والی تین طلاقوں کو تین شمار کیا۔
۲: امام نسائی نے اپنی سند سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے بارے میں خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سخت غصہ ہوئے اور فرمایا:
(( اَیَلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاَنَا بَیْنَ اَظْہُرِکُمْ۔))
’’کیا اللہ کی کتاب سے کھلواڑ کیا جائے گا، حالانکہ میں تمہارے درمیان (ابھی موجود) ہوں ۔‘‘
یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا: ’’اے اللہ کے رسول کیا میں اسے قتل نہ کر دوں ؟‘‘ [2]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس آدمی نے ایک ہی لفظ میں تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بہت سخت ناراض ہوئے اور اس کو ڈانٹا۔ پس آپ کی ناراضی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ طلاقیں واقع ہوگئی تھیں ، کیونکہ وہاں بیان اور وضاحت کی ضرورت تھی، اگر وہ واقع نہ ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ضرور بیان کرتے اور اصول فقہ کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ جس مقام ووقت پر بیان ووضاحت کی ضرورت ہو اسے بلا کسی مجبوری کے وہاں سے مؤخر کرنا درست نہیں ہے۔ [3]
[1] المدونۃ الکبریٰ، الطلاق، طلاق السنۃ: ۲/ ۶۲۔ یہ روایت مرسل ہے۔ لیکن سعید بن مسیب کے مراسیل میں سے ہے جسے محدثین نے قابل قبول مانا ہے۔
[2] سنن النسائی، الطلاق الثلاث المجموعۃ: ۶/ ۱۴۳، رقم الحدیث: ۳۴۰۱۔ حافظ ابن حجر نے اس کے رجال کو ثقہ کہا ہے۔ دیکھئے: فتح الباری: ۹/ ۳۶۲۔ حافظ ابن قیم کا کہنا ہے کہ اس کی سند مسلم کی شرط پر ہے۔ دیکھئے: زاد المعاد: ۵/ ۲۴۱۔ شیخ البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے ضعیف سنن النسائی۔ اس روایت کو صحیح مان لینے کی صورت میں بھی مصنف کا استدلال عجیب ہے کہ سخت ناراضی کا اظہار کرنے کے باوجود ان دی ہوئی طلاقوں کو صحیح مان لیا، حالانکہ آپ کی ناراضگی اس کی عدم شرعیت کی دلیل ہے کیونکہ یہ فعل غیر مشروع ہے، اور جب غیر مشروع ہے تو پھر اس کے وقوع کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ۔)) رواہ مسلم: ۱۷۱۸۔ جو کوئی ایسے عمل کا ارتکاب کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہے وہ مردود ہے۔ (مترجم)
[3] القضاء فی عہد عمر بن الخطاب: ۲/ ۷۳۶