کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 264
ابوصہباء سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ عہد نبوت، عہد صدیقی اور خلافت فاروقی کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہاں ۔ [1]
مذکورہ دونوں آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے سے معمول بہ طریقہ … یعنی ایک لفظ یا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ماننے … کے خلاف عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین شمار ہوں گی اور اس تعزیری وتادیبی کارروائی کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے دیکھا کہ لوگ تین طلاقیں ایک ساتھ کثرت سے دینے لگے ہیں ، تو ضروری سمجھا کہ (ان پر سختی کرکے) انہیں مسنون و شرعی طریقۂ طلاق کی طرف لوٹایا جائے اور وہ طریقہ یہ [2] ہے کہ ایک طلاق دینے کے بعد عورت کو چھوڑ دیا جائے (رجوع نہ کیا جائے) یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہوجائے۔ لیکن اگر وہ اس کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہے یا رشتۂ زوجیت میں رکھنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ عدت پوری ہونے سے پہلے اس کی طرف رجوع کرلے یہاں تک کہ تین طلاقیں پوری ہوجائیں ۔ [3]
ڈاکٹر عطیہ مصطفی مشرفہ جیسے بعض لوگوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو نصوص شرعیہ کے مخالف قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے:
’’عمر رضی اللہ عنہ رائے واجتہاد پر عمل کرنے میں بہت جری تھے اگرچہ وہ آراء واجتہادات بعض نصوص شرعیہ اور معمول بہ طور طریقہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں ، اس سے آپ کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی حکم جدید اسلامی معاشرہ کے تقاضوں کے موافق ہوجائے۔‘‘
اور پھر ڈاکٹر موصوف نے ایک لفظ یا مجلس میں تین طلاقوں کے تین شمار کرنے کی فاروقی کارروائی کو بطور مثال ذکر کیا ہے۔ [4] لیکن صحیح اور حق بات یہ ہے کہ آپ کا یہ اقدام نصوص قطعیہ کے بالکل مخالف نہ تھا بلکہ چند معتبر شرعی دلائل وامثال کی بنیادوں پر آپ نے شرعی نص کے سمجھنے میں اجتہاد کیا تھا، مثلاً:
۱: امام مالک نے اشہب سے، انہوں نے قاسم بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ ان سے یحییٰ بن سعید نے اور
[1] صحیح مسلم، الطلاق، حدیث نمبر: ۱۴۷۲۔
[2] طلاق کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو بحالت طہر جس میں ہم بستری نہ کی ہو، بوقت ضرورت ایک طلاق دی جائے، اب اگر عدت کے اندر رجوع کرنا چاہے تو کرلے اور عدت گزر جانے کے بعد طرفین آزاد ہیں ، اگر دونوں دوبارہ رشتۂ زوجیت میں آنا چاہتے ہیں تو طرفین کی رضا سے تجدید نکاح کرنا ہوگا، اگر پھر دوبارہ طلاق کی نوبت آگئی تو پھر عدت کے اندر رجعت اور عدت کے بعد تجدید نکاح کے ذریعہ رشتہ زوجیت سے منسلک ہوسکتے ہیں ، لیکن اگر تیسری بار پھر طلاق کی نوبت آگئی تو پھر نہ رجعت کا حق ہوگا اور نہ تجدید نکاح کا۔ (مترجم)
[3] القضاء فی عہد عمر بن الخطاب، د/ ناصر الطریفی: ۲/ ۷۳۳
[4] القضاء فی الإسلام، ص: ۹۸،۹۹۔