کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 263
تینوں گواہوں پر تہمت کی حد نافذ کی کیونکہ تین کی شہادت سے اتہام زنا کی مطلوبہ شہادت پوری نہیں ہوتی۔ [1]
۵: جادوگر کی سزا قتل ہے:
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آفیسروں کو یہ عمومی حکم نامہ بھیجا تھا کہ ہر جادوگر اور جادوگرنی کو قتل کردو۔ [2] اور آپ نے یہ حکم نافذ کیا اور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع تھا۔
۶: اپنی اولاد کے قاتل اور ذمی کے مسلمان قاتل کا کیا حکم ہے؟
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد کے قاتل کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دیت ادا کرے۔ [3]اور جو مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے، آپ کے دورِ خلافت میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا، شام میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کردیا تو آپ نے قصاص میں اسے قتل کروا دیا۔ [4]
۷: شراب نوشی کی حد اسّی (۸۰) کوڑے مقرر کرنا:
جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت سنبھالا اور اسلامی فتوحات کی کثرت ہوگئی، آبادیاں دور دور تک پھیل گئیں ، لوگوں کی اقتصادی حالت بہتر ہوگئی اور ایسے بہت سارے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا جو مکمل طریقے سے اسلامی تربیت اور دینی معلومات سے ناآشنا تھے، تو ان میں بہت زیادہ شراب نوشی ہونے لگی اور عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک بڑی پریشانی آکھڑی ہوئی۔ چنانچہ آپ نے بزرگ صحابہ کو اکٹھا کیا اور اس سلسلہ میں مشورہ لیا، سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان کی سزا اسّی (۸۰) کوڑے بطور حد مقرر کی جائے، یہ حدود کی سب سے کم تر مقدار ہے۔ بہرحال آپ نے اسی پر عمل کیا اور آپ کی پوری مدت خلافت میں کسی صحابی نے اس کی مخالفت نہ کی۔ [5]
۸: آپ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کیا:
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ان کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں ۔ پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگ اس معاملے میں جلدی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لیے مہلت تھی، لہٰذا اگر ہم اسے ان پر نافذ کردیتے (تو اچھا ہوتا) چنانچہ آپ نے ایسا ہی کردیا۔ [6]
[1] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۴۹۔
[2] اولویات الفاروق السیاسیۃ، ص: ۴۴۷۔
[3] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص:۱۵۳۔ المغنی: ۱۱/ ۴۰۵۔
[4] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۵۳۔ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند منقطع ہے، مصنف عبدالرزاق: ۱۰/۱۰۱ میں اس کی سند یوں ہے: ’’عن الثوری عن حماد بن ابراہیم اَنَّ رَجُلًا مُسْلِمًا قَتَلَ رَجُلًا مِنْ اَہْلِ الذِّمَّۃِ الْحِیْرَۃِ فَاَقَادَ مِنْہُ عُمَرُ۔ابراہیم اور عمر کے درمیان انقطاع ہے۔ ابراہیم نے عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ، اور اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ: ۶/ ۳۶۳ کی روایت میں مجہول العین راوی ہے: عن ابی نضرۃ قال حُدّثنا ان …
[5] إعلام الموقعین: ۱/ ۲۱۱۔
[6] صحیح مسلم، الطلاق، حدیث نمبر: ۱۴۷۲۔