کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 260
درہم تک پہنچ جاتی۔ [1] آپ کے عہد میں مدائن، جلولاء، ہمدان، ری اور اصطخر جیسے بڑے بڑے شہر فتح کیے گئے اور مسلمانوں کے ہاتھ بہت سا مال لگا، جیسے کسریٰ قالین (زری) جو (۳۶۰۰) مربع گز کا تھا وہ سونے اور قیمتی نگینوں سے منقش کیا ہوا تھا، پھلوں کی تصویریں ہیرے وجواہر اور بیل بوٹے ریشم سے بنائے گئے تھے، بہتی نہر کی تصویر کشی سونے سے کی گئی تھی، وہ قالین بیس ہزار (۰۰۰,۲۰) درہم میں فروخت کیا گیا، جلولاء اور نہاوند سے سونا چاندی اور ہیرے جواہرات کی شکل میں بہت سے اموال غنیمت پر مسلمان قابض ہوئے، صرف جلولاء کے مالِ غنیمت کا خمس چھ ملین درہم تھا۔ [2]
(۲)…محکمہ ٔعدل
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں جب اسلام دور دور تک پھیل گیا، اسلامی سلطنت کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا اور دیگر اقوام سے مسلمانوں کے تعلقات ومراسم پیدا ہوگئے تو جدید تمدنی احوال وظروف اس بات کے متقاضی ہوئے کہ محکمۂ عدل کو ترقی دی جائے۔ چونکہ خلیفہ کی مشغولیات میں کثرت، ریاستی سطح پر سرکاری حکام وگورنران کے کاموں میں تنوع اور عوام کے باہمی نزاع واختلافات میں اضافہ ہوچکا تھا، اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے مناسب سمجھا کہ ریاستوں اور ان سے متعلق محکموں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے عدل وقضاء کے لیے مستقل ایک محکمہ قائم کریں ، تاکہ گورنر حضرات اپنی ریاستی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرسکیں ۔ چنانچہ پھر محکمۂ عدل کا قیام ہوا، اور اس کے لیے مستقل قاضی وجج حضرات مقرر کیے گئے، ان کا ریاست کے دیگر حکومتی واداری امور سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا۔ اس طرح عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو محکمۂ عدل کے قیام میں اوّلیت حاصل ہوئی۔ کوفہ، بصرہ، شام، اور مصر جیسے بڑے بڑے اسلامی شہروں میں قاضیوں کی تعیین ہوئی، خواہ منصب قضاء پر قاضی کی تعیین براہِ راست خلیفہ کی طرف سے ہوئی ہو یا صوبائی گورنر نے آپ کی نیابت کرتے ہوئے اسے مقرر کیا ہو اور پھر محکمۂ عدل حکومت اسلامیہ سے براہِ راست تعلق رکھنے والا ایک ذیلی محکمہ قرار دیا گیا۔
بہرحال عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی قیادت کے تمام تر جواہر آپ کی شخصیت میں موجود تھے اور ملک، ملکی دائرہ اقتدار وملکی معاملات کی تنظیم وترتیب نیز ان کے لیے اصول سازی وضابطہ بندی سے آپ کی شخصیت عاجز نہ تھی۔
یورپ نے اٹھارویں صدی عیسوی میں ملکی وبین الاقوامی حکومتوں کے لیے ایک نظری نظامِ عدل وانصاف پیش کرکے یہ سمجھ لیا کہ حکومتوں کی تنظیم اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ میں اسے تمام شریعتوں اور حکومتوں پر سبقت حاصل ہے، جیسے کہ یورپی یونین (مونٹسکو) نے متعدد مذاہب کے نظام عدل وانصاف پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کا
[1] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۸۸۔
[2] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۸۹۔