کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 259
تعلق ملکی درآمدات سے ہو، یا برآمدات سے۔ یہ نظام موجودہ دور کے کسٹم محصول سے قریب تر ہے۔ اس محصول کو وصول کرنے والے ذمہ دار کو ’’عاشر‘‘ (کسٹم آفیسر) کہا جاتا ہے۔ [1] روایت کیا گیا ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا کہ ہمارے کچھ مسلمان تاجر دار الحرب میں تجارت کرنے جاتے ہیں اور وہ ان سے عشر (۱۰/۱ ) وصول کرتے ہیں ۔ آپ نے جواب لکھا: تم بھی ان سے اسی طرح وصول کرو جس طرح وہ تم سے وصول کرتے ہیں اور ذمیوں سے نصف عشر (۲۰/۱ ) وصول کرو، اور مسلمانوں کے پاس دو سو درہم ہو جانے کے بعد ان کے ہر چالیس درہم پر ایک درہم لو۔ دو سو درہم سے کم رہنے پر ان سے کچھ نہ لو۔ جب دو سو درہم ہوجائے تو اس میں پانچ درہم وصول کرو اور اگر اس سے زیادہ ہوجائے تو اسی حساب سے لیا کرو۔ [2] عہد فاروقی میں کچھ کسٹم آفیسران مقرر تھے جو اسلامی سلطنت کے حدود سے گزرنے والے اموال تجارت سے زکوٰۃ وصول کرتے تھے اور اس میں نصاب وسال گزرنے کا اعتبار کرتے تھے، انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے عراق کا محصل (زکوٰۃ وصول کرنے والا آفیسر) بنا کر بھیجا اور کہا: جب ایک مسلمان کا مال دو سو درہم تک پہنچ جائے تو اس سے پانچ درہم وصول کرو اور جب دو سو سے زیادہ ہوجائے تو ہر چالیس درہم پر ایک درہم لو۔ [3] شیبانی نے لکھا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے زیاد بن جریر کو اور دوسرے قول کے مطابق زیاد بن حدیر کو ’’عین التمر‘‘ کا محصل بنا کر بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ ان کے مال سے ربع عشر یعنی (۴۰/۱ ) وصول کریں ، اور اہل ذمہ سے … اگر وہ اپنے اموال کو تجارت میں استعمال کرتے ہوں … نصف عشر یعنی (۲۰/۱ ) اور حربی کفار سے عشر یعنی (۱۰/۱ ) اور آپ نے کسٹم وصول کرنے والے کی تنخواہ کسٹم آمدنی سے مقرر کی۔ [4] ۶۔ فے اور مالِ غنیمت: ہر وہ مال جو مسلمانوں کو مشرکین وکفار سے بغیر جنگ وجدال کے حاصل ہو اسے فے کہا جاتا ہے، مال فے کا خمس،خُمس کے مستحقین میں تقسیم کیا جائے گا۔ چنانچہ خلافت فاروقی میں مفتوحہ علاقوں کی توسیع اور ان کی اقتصادی ومعاشی خوش حالی کی وجہ سے اموالِ غنیمت کی بہتات ہوگئی، روم وفارس کے فوجی جرنیل پورے کروفر کے ساتھ میدان جنگ میں اترتے اور ان سے چھینا ہوا مال مسلمانوں کا دامن بھر دیتا، کبھی کبھی ان اموال کی قیمت پندرہ ہزار (۰۰۰,۱۵) اور تیس ہزار (۰۰۰,۳۰)
[1] الخراج، أبویوسف، ص: ۲۷۱۔ اقتصادیات الحرب، ص: ۲۲۳۔ [2] الخراج، أبویوسف، ص: ۱۴۵، ۱۴۶۔ سیاسۃ المال، ص: ۱۲۸۔ [3] الحیاۃ الاقتصادیۃ فی العصور الإسلامیۃ الاولیٰ، ص: ۱۰۱۔ [4] شرح السیر الکبیر: ۵/ ۲۱۳۳، ۲۱۳۴۔ الحیاۃ الاقتصادیۃ، ص: ۱۰۱۔