کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 258
کہا: سمجھ میں نہیں آتا کہ مجوسیوں کے ساتھ کیا کروں ؟ وہ اہل کتاب نہیں ہیں ، تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
(( سُنُّوْا بِہِمْ سُنَّۃَ أَہْلِ الْکِتَابِ۔)) [1]
’’ان کے ساتھ اہل کتاب کا سا برتاؤ کرو۔‘‘
اور دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ مجوسیوں سے جزیہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، لیکن جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ہجر‘‘ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا ہے تو آپ نے ان پر جزیہ لاگو کیا۔ [2]
علماء نے مجوسیوں سے جزیہ لینے کی علت یہ بتائی ہے کہ حقیقت میں وہ بھی اہل کتاب ہیں ، بعد میں ان میں بگاڑ آیا کہ انہوں نے آگ کی پرستش شروع کردی۔ یہ واضح ہوجانے کے بعد آپ نے عراق والوں سے جزیہ لینا شروع کیا، نیز فارس کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا، اور جزء بن معاویہ کو خط لکھا کہ تمہارے زیر انتظام
۴۔ تغلب کے نصاریٰ سے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کا دگنا صدقہ وصول کرنا:
جزیرہ عرب کے بعض نصاریٰ نے جزیہ ادا کرنے سے انکار کردیا، کیونکہ وہ اسے اپنے لیے باعث ذلت وحقارت سمجھتے تھے۔ ولید رضی اللہ عنہ نے نصاریٰ کے بڑوں ، بزرگوں اور علماء کو سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ آپ نے ان سے کہا: جزیہ دو، انہوں نے کہا: آپ ہمیں ہمارے جائے امن پر پہنچا دیں ۔ اللہ کی قسم! اگر آپ نے ہم پر جزیہ مقرر کیا تو ہم روم کی سرزمین میں چلے جائیں گے، اللہ کی قسم آپ عربوں کے درمیان ہمیں رسوا کرتے ہیں ۔ آپ نے ان سے فرمایا: تم نے بذاتِ خود اپنے کو رسوا کیا اور اپنی قوم کی مخالفت کی۔ اللہ کی قسم تمہیں ذلت ورسوائی برداشت کرتے ہوئے اسے ضرور ادا کرنا پڑے گا اور اگر تم روم بھاگ کرگئے تو حاکم روم کے پاس تمہارے متعلق خط لکھوں گا، پھر تمہیں قیدی بناؤں گا۔ انہوں نے کہا: آپ ہم سے کچھ لے لیں لیکن اسے جزیہ نہ کہیں ۔ آپ نے فرمایا: ہم تو اسے جزیہ ہی کہیں گے، تم جو چاہے اسے نام دو۔ سیّدناعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: امیر المومنین! کیا سعد بن ابی وقاص نے ان لوگوں پر زکوٰۃ دوگنی نہیں کردی ؟ آپ نے فرمایا: ہاں کی ہے اور پھر آپ نے معاملہ پر غور کیا تو ان کے لیے یہی بدلہ مناسب پایا، پھر وہ سب واپس چلے گئے۔ [3]
۵۔ عشور (کسٹم آمدنی):
عشور سے مراد وہ آمدنی ہے جسے اسلامی سلطنت سے گزرنے والی تجارت پر عائد کیا جاتا ہے، خواہ اس کا
[1] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۲۳۵۔ نقلًا عن: مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱/ ۱۴۱
[2] صحیح البخاری، الجزیہ والموادعۃ، حدیث نمبر: ۳۱۵۶ ، ۳۱۵۷
[3] تاریخ الطبری: ۵/ ۳۰۔ ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری نے اس روایت کو سنداً ضعیف مانا ہے۔ دیکھئے: عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۶۷