کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 257
زکوٰۃ میں زیادہ دودھ دینے والی اور بڑے تھن والی بکری وصول کی تھی۔ آپ نے فرمایا:
’’اس بکری کے مالک نے اسے بخوشی تمہیں نہیں دیا ہے، لوگوں کو آزمائش میں مت ڈالو۔‘‘ [1]
باشندگان شام میں سے کچھ لوگ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: ’’ہمیں کچھ مال، گھوڑے اور غلام ملے ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ ان میں زکوٰۃ دیں ، اور اپنے اموال پاک کریں ۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’مجھ سے پہلے میرے دونوں ساتھیوں نے جو کیا ہے میں وہی کروں گا۔‘‘ پھر آپ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لیا، ان میں علی رضی اللہ عنہ بھی تھے، علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ بہتر ہے، بشرطیکہ مقررہ جزیہ کی شکل میں نہ ہو جو آپ کے بعد ان سے وصول کیا جائے۔ [2]
۳۔ جزیہ:
جزیہ ایک ٹیکس ہے جسے اہل کتاب ذمیوں سے (ان کی حفاظت وذمہ داری کے عوض) وصول کیا جاتا ہے۔ [3]
اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد خراج ہے جسے کفار کو ذلیل ورسوا کرنے کے لیے ان پر فرض کیا جاتا ہے۔ [4] اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ﴾ (التوبۃ:۲۹)
’’لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں ، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں ۔‘‘
جزیہ اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ سے لیا جائے گا، یہ ایک متفق علیہ حکم ہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، اور یہی حکم ان لوگوں کا بھی ہے جو اہل کتاب سے ملتے جلتے ہیں ، یعنی مجوسی لوگ۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ شروع شروع میں مجوسیوں سے جزیہ لینے کے بارے میں متردد تھے، لیکن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے آگاہ کرکے کہ آپ نے ’’ہجر‘‘ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا ہے اور آپ کے تردد کو ختم کردیا۔ [5] چنانچہ ابن ابی شیبہ وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ قبر نبوی اور منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کھڑے تھے تو آپ نے
[1] الموطأ، مالک: ۱/ ۲۵۶۔ عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۹۴
[2] مسند أحمد، حدیث نمبر: ۸۲۔ اس کی سند صحیح ہے۔ الموسوعۃ الحدیثیۃ
[3] السیاسۃ الشرعیۃ، ابن تیمیہ، ص: ۱۱۳، ۱۱۴۔ المعاہدات فی الشریعۃ، د/ الدیک، ص: ۳۱۳ ۲۱۳
[4] اہل الذمۃ فی الحضارۃ الاسلامیۃ، حسن المِمّی، ص: ۳۹
[5] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۲۳۵