کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 256
چوتھا باب
وزارت خزانہ، وزارت عدل اور عہد فاروقی میں ان کی ترقی
(۱)…وزارتِ خزانہ
۱۔ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ملکی آمدنی کے ذرائع :
خلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں نے مال کو ہر اعتبار سے اللہ کی نعمت سمجھا اور یہ عقیدہ رکھا کہ انسان اس کا صرف ایک محافظ اور خلیفہ ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے شروط وحدود کی رعایت کرتے ہوئے اس میں تصرف کرسکتا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم مال اور اس کے خرچ سے متعلق تمام چیزوں میں اس حقیقت کو موکد شکل میں پیش کرتا ہے:
ارشادِ الٰہی ہے:
﴿ آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ﴾ (الحدید:۷)
’’اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں دوسروں کا جانشین بنایا ہے۔‘‘
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کتاب وسنت کے احکامات کو نافذ کرنے میں لاثانی شخصیت کے حامل تھے، کسی چیز میں مسلمانوں کو چھوڑ کر خود کو ترجیح نہ دیتے تھے اور نہ مطلق العنان تھے کہ ان پر اپنی رائے تھوپتے، جب کوئی حادثہ پیش آتا آپ مسلمانوں کو اکٹھا کرتے اور ان سے مشورہ لیتے، پھر ان کی رائے کے مطابق فیصلہ کرتے۔ [1]
بہرحال عہد فاروقی میں دولت کے اہم مصادر وذرائع آمدنی کو یہاں مختصراً ذکر کیا جا رہا ہے:
۲: زکوٰۃ:
سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے راستہ وطرز عمل پر چلے اور منظم شکل میں ’’بیت الزکوٰۃ‘‘ قائم کیا، اور جب مفتوحہ ممالک کے بیشتر باشندے اسلام لے آئے تو آپ نے اسلامی حکومت وسلطنت کے مختلف علاقوں میں زکوٰۃ کی وصولی کے لیے محصلین کو بھیجا۔ اس وصول یابی میں عدل پروری کی صفت خلافت راشدہ کی امتیازی شان تھی، اس میں بیت المال کے حقوق میں کسی قسم کی گڑبڑ کا قطعاً کوئی خطرہ نہ تھا۔ چنانچہ اسی نظام میں عدل کی روح کو تازگی بخشتے ہوئے عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس محصل زکوٰۃ کو ڈانٹ پلائی جس نے
[1] مبادی النظام الاقتصادی الإسلامی، د/ سعاد إبراہیم صالح، ص: ۲۱۳