کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 251
میں اللہ کی بڑی عظمت تھی، اے امیر المومنین! وہ ہمیں اور آپ کو بھی نہایت عزیز تھا، میری مراد ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو بخش دے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے پاس نیکوکاروں میں سے ہیں ، ان کے حق میں بھلائی کے لیے اللہ پر مکمل اعتماد کرتے ہیں ۔ میں نے یہ خط آپ کے پاس تحریر کیا ہے درآنحالیکہ موت اور طاعون کی وباء نے پڑاؤ ڈال دیا ہے، کسی کی موت اس کی ذات سے خطا نہیں کرسکی، جو اب تک زندہ ہے وہ بھی عنقریب وفات پانے والاہے۔ اللہ نے اس کے لیے اپنے پاس جو کچھ باقی رکھا ہے وہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر اس نے ہمیں زندہ رکھا یا فوت کر دیا تو بھی اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں اور عوام وخواص کی طرف سے آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آپ اس کی رحمت، مغفرت، رضامندی اور جنت سے نوازے جائیں ۔ والسلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔‘‘ [1] جب یہ خط عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو آپ اس کو پڑھ کر رونے لگے اور بہت زیادہ روئے، اور ساتھیوں کو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سنائی۔ [2] خبر سن کر سب لوگ رونے لگے اور سب کے سب قضاء وقدر سے راضی رہتے ہوئے بہت ہی رنجیدہ وغمگین ہوئے۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وفات: ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد چند دنوں تک معاذ رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے، ادھر طاعون کی وبا سخت ہوگئی اور لوگوں کی کثرت سے موت ہونے لگی، آپ بحیثیت خطیب کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! طاعون کی یہ بیماری تمہارے ربّ کی طرف سے رحمت، اور تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی قبولیت اور تم سے پہلے صالحین کی موت کا سبب ہے اور معاذ اللہ سے سوال کرتا ہے کہ آلِ معاذ کے لیے اس بیماری سے ان کا حصہ عطا کردے، چنانچہ آپ کے صاحبزادے عبدالرحمن بن معاذ طاعون کا شکار ہوگئے۔ [3] جب آپ نے اپنے صاحبزادے کو دیکھا تو کہا: ﴿ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴾ (البقرۃ:۱۴۷) ’’حق وہی ہے جو تیرا ربّ کہے، تو ہرگز ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔‘‘ اور کہا اے میرے بیٹے: ﴿ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّـهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴾ (الصافات: ۱۰۲) ’’اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صبر کرنے والوں میں سے پاؤ گے۔‘‘
[1] الاکتفاء: ۳/ ۳۰۹ [2] الاکتفاء: ۳/ ۳۱۰ [3] تاریخ الطبری: ۵/ ۳۶