کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 249
چنانچہ جب امیر المومنین کا یہ خط ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو ملا تو آپ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا: اے ابوموسیٰ میرے پاس امیر المومنین کا خط آیا ہے، تم اسے دیکھ رہے ہو، لہٰذا جاؤ، اور لوگوں کے لیے بہترین رہائش گاہ تلاش کرو اور پھر ان کو لے کر میں تمہارے پاس آتا ہوں ۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اپنے گھر واپس گئے وہاں دیکھا کہ ان کی بیوی بھی طاعون کی بیماری میں مبتلا ہوچکی ہیں ۔ یہ دیکھ کر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں صورتِ حال سے آگاہ کیا، پھر ابوعبیدہ نے اپنا گھوڑا تیار کرنے کا حکم دیا اور جونہی اپنا پیر گھوڑے کے پالان پر رکھا طاعون نے ان کو آدبوچا، پھر آپ کہنے لگے: اللہ کی قسم میں بھی اس میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔ [1] عروہ سے روایت ہے کہ طاعون عمواس کی تکلیف سے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گھرانے کے لوگ محفوظ تھے، لیکن ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! آل ابوعبیدہ میں تیرا حق ہے، پھر ان کو ایک پھنسی نکلی، آپ اس کو دیکھنے لگے، لوگوں نے کہا: یہ تو بہت معمولی چیز ہے۔ آپ نے کہا: نہیں ، میں امید کرتا ہوں کہ اللہ اس پھنسی نماز خم میں ضرور برکت دے گا۔ [2] طاعون کی بیماری میں مبتلا ہونے سے پہلے آپ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور یہ خطبہ دیا: اے لوگو! یہ بیماری تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے لیے رحمت ہے، اور تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت ہے، اور تم سے پہلے نیکوکاروں کی موت کا سبب ہے، ابوعبیدہ اللہ سے سوال کرتا ہے کہ اپنی طرف سے وہ اس کا (طاعون) حصہ اسے بھی دے دے۔ [3] چنانچہ جب آپ طاعون میں مبتلا ہوگئے تو مسلمانوں کو بلوایا، وہ آپ کے پاس آئے، آپ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا: میں تم کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں ، اگر تم اسے مان گئے تو جب تک زندہ رہو گے اور مرنے کے بعد بھی بخیر وعافیت رہو گے، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، روزے رکھو، صدقہ وخیرات کرو، حج وعمرہ کرو، آپس میں محبت اور صلہ رحمی کو رواج دو، اپنے حکمرانوں سے سچ بات کہو، ان کو دھوکہ نہ دو، یاد رہے! دنیا تمہیں غافل نہ بنا دے، کیونکہ ایک شخص اگرچہ ہزاروں سال کی عمر سے نواز دیا جائے تاہم اسے اسی چوکھٹ یعنی موت سے گزرنا ہے جس سے اس وقت میں گزر رہا ہوں ، اور تم دیکھ رہے ہو اللہ نے تمام انسانوں پر موت لکھ دی ہے، سب یقینا مرنے والے ہیں ، ان میں سب سے ہوشیار وہ ہے جو اپنے ربّ کا سب سے زیادہ مطیع، اور آخرت کے لیے سب سے زیادہ توشہ تیار کرنے والا ہے۔ پھر آپ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا: اے معاذ! لوگوں کو نماز پڑھاؤ، آپ نے سب کو نماز پڑھائی، اور پھر ابوعبیدہ رحمہ اللّٰہ ومغفرتہ ورضوانہ کی وفات ہوگئی۔ [4] اس کے بعد معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور کہا: ’’اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو اور سچے دل
[1] تاریخ الطبری: ۵/ ۳۵ [2] تاریخ الذہبی، ص: ۱۷۴ [3] تاریخ الطبری: ۵/ ۳۶ [4] الاکتفاء: ۳/ ۳۰۶