کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 248
جاتا ہے، اس کا زیادہ اثر شام میں تھا۔ اس میں بہت سارے اللہ کے محبوب بندے وفات پاگئے۔ جیسے کہ ابوعبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ ، جو وہاں کے امیر تھے، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان اور حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم آخر الذکر کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ معرکہ یرموک میں شہید ہوئے، نیز سہیل بن عمرو اور عتبہ بن سہیل رضی اللہ عنہما اور دیگر مشاہیر جاں بحق ہوئے اور جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ وہاں کے امیر بنائے گئے تب یہ وبا وہاں سے ختم ہوئی، چنانچہ زمام امارت ہاتھ میں لینے کے بعد آپ نے خطبہ دیا اور کہا: اے لوگو! یہ بیماری جب واقع ہوتی ہے تو آگ کی طرح بھڑک اٹھتی ہے، اس سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لو، چنانچہ آپ خود وہاں سے نکل گئے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ نکلے، پھر مختلف مقامات پر منتشر ہوگئے یہاں تک کہ اللہ نے ان سے اس مصیبت کو دور کردیا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے اس عمل وتدبیر کی خبر عمر رضی اللہ عنہ کو بھی پہنچی لیکن آپ نے اسے ناپسند نہیں کیا۔ [1] ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات: جب طاعون کی وبا پھیل گئی اور کو اس کی خبر عمر رضی اللہ عنہ پہنچی تو آپ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط تحریر کیا، مقصد یہ تھا کہ ان کو وہاں سے نکال لیں ، خط کا مضمون یہ تھا: ’’سَلَامٌ عَلَیْکَ، اما بعد: مجھے تم سے ایک اہم ضرورت آپڑی ہے جس میں براہِ راست میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں ، لہٰذا جب تم اس خط کو پڑھو تو اس سے پہلے کہ خط اپنے ہاتھ میں رکھو میری طرف روانہ ہوجاؤ۔‘‘ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے خط کے مضمون سے اندازہ کرلیا کہ مجھ پر شفقت ومہربانی کے پیش نظر امیر المومنین کا مقصد مجھے اس وبا سے بچانا ہے۔ چنانچہ آپ نے کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ امیر المومنین کی مغفرت فرمائے!‘‘ اور پھر خط کا جواب یوں تحریر کیا: ’’اے امیر المومنین! آپ کو مجھ سے جو ضرورت ہے میں نے اسے بخوبی سمجھ لیا، میں مسلمانوں کے فوجی لشکر میں ہوں ، ان کو چھوڑ کر جانے کو میری طبیعت تیار نہیں ، میں ان کی جدائی کا ارادہ نہیں رکھتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے اور ان کے بارے میں اپنا حکم وفیصلہ نافذ کردے۔ لہٰذا اے امیر المومنین مجھے اپنے عزم وارادے سے آزاد کردیجیے اور مجھے اپنی فوج میں چھوڑ دیجیے۔‘‘ جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب نامہ پڑھا تو رونے لگے۔ لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین کیا ابوعبیدہ کی وفات ہوگئی؟ آپ نے فرمایا: گویا یہی سمجھو۔ راوی کابیان ہے کہ پھر آپ نے ابوعبیدہ کے نام خط لکھا: ’’سَلَامٌ عَلَیْکَ، اما بعد: تم نے لوگوں کو پست اور گہری زمین میں اتارا ہے، انہیں لے کر بلند اور ستھری زمین میں جاؤ۔‘‘
[1] الخلفاء الراشدون، النجار، ص: ۲۲۵۔ تاریخ الطبری: ۵/ ۳۶۔