کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 245
پہنچانے کے لیے مفتوحہ شہروں کی طرف منتقل ہوجائیں ۔ اس دوران میں جو سب سے اہم شہر بسائے گئے، [1] وہ بصرہ، کوفہ، موصل، فسطاط، جیزہ اور سرت تھے۔ [2] اسلامی افواج کے قبائل اور جھنڈوں کے اعتبار سے مکانات تیار کیے گئے اور ان شہروں کی منصوبہ بندی اور توزیع لشکر اسلام کے قبائل اور بٹالین کے اعتبار سے کی گئی۔ نیز ان شہروں میں رفاہ عام کی تعمیرات مثلاً مسجدیں اور بازار بھی بنائے گئے، ہر شہر کے لیے ایک چراگاہ بنائی گئی جس میں مجاہدین کے گھوڑے اور اونٹ چرسکیں ۔ آپ نے لوگوں کو رغبت دلائی کہ وہ اپنے بال بچوں کو لے کر حجاز کے شہروں اور جزیرہ عرب کے دور دراز علاقوں کو چھوڑ کر ان شہروں میں آباد ہوجائیں تاکہ یہ شہر فوجی اڈوں کا کام کریں ، یہاں مجاہدین کا لشکر تیا رکیا جائے اور اسے مدد بہم پہنچائی جائے تاکہ وہ دشمن کی سرزمین میں اندر تک گھس جائیں اور وہاں اسلام کی دعوت دیں ، آپ نے ان شہروں کا خاکہ تیار کرتے وقت فوجی کمانڈروں کو حکم دیا تھا کہ دارالحکومت سے ان شہروں تک بہترین سٹرک تیار کی جائے، درمیان میں سمندر ودریا حائل نہ ہوں ، اس لیے کہ آپ اس وقت سمندری سواری سے عربوں کی عدم واقفیت سے ڈرتے تھے۔ لیکن جب مصر میں اسلامی افواج کا مشاہدہ کرلیا کہ ان میں دریائی وسمندری راستوں کو پار کرنے کی صلاحیت ہے تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو کھاڑی کی شکل میں وہ نہر کھودنے کی اجازت دے دی جو دریائے نیل اور بحر احمر کے درمیان بہنے لگی اور اسی راستے سے غلہ وغیرہ کی امداد مصر سے حجاز پہنچائی جانے لگی۔ [3] ۴۔ مفتوحہ شہروں میں فوجی چھاؤنیاں : مفتوحہ ممالک کے تمام شہروں میں اور خاص طور سے شام کے شہروں میں سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے جن فوجی چھاؤنیوں کو قائم کیا انہیں آپ نے اجناد (لشکر) کا نام دیا، چنانچہ آپ نے ان شہروں میں فوجی چھاؤنیاں بنائیں ، ان میں فوج کے رہنے کے لیے بیرکیں بنائیں گھوڑوں کے اصطبل بنائے جن میں بیک وقت کم از کم چار ہزار گھوڑے ساز وسامان اور پوری تیاری کے ساتھ ہر وقت تیار رہتے تھے۔ [4] ایسی تیاری کا مقصد محض یہ تھا کہ اگر اچانک ضرورت پیش آجائے تو معمولی وقت میں چھتیس ہزار (۳۶۰۰۰) سے زیادہ شہسوار مجاہدین کا یہ دستہ صرف ملک شام سے میدانِ جنگ کے لیے فوراً نکل پڑے، ہر فوجی چھاؤنی میں آپ نے گھوڑوں کے لیے وسیع وعریض چراگاہ بھی تیار کرائی تھی، اور حکم الٰہی کی تنفیذ میں رمزی علامت کے طور پر ہر گھوڑے کی ران پر داغ کر یہ لکھ دیا جاتا: ((جَیْشُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔))یعنی یہ لشکر اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے (وقف) ہے۔
[1] اقتصادیات الحرب فی الإسلام، د/ غازی بن سالم، ص: ۲۴۵ [2] تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ، د/ جمیل المصری، ص: ۳۳، ۳۴۰ [3] اقتصادیات الحرب فی الإسلام، ص: ۲۴۵ [4] البدایۃ والنہایۃ: ۷/ ۱۳۸۔ تاریخ الدعوۃ، ص: ۳۴۱