کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 243
تھی۔ چنانچہ جب آپ کے پاس مجاہدین کا لشکر آتا تو آپ اس پر ایک عالم دین مقرر کردیتے، تاکہ وہ فوج کو دین کی باتیں ، شرعی احکامات، فقہی اصول اور قرآنِ مجید نیز دیگر پیش آنے والے معاملات میں ان کے سامنے شرعی حل پیش کرے۔ [1] اور جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا تو ان علمی وتربیتی اداروں کی ضرورت بھی پڑی، اس لیے کہ کوفہ، بصرہ اور فسطاط وغیرہ اسلامی شہروں کی شکل اختیار کر چکے تھے، مزید برآں یہی شہر فوجی چھاؤنیاں اور مع اہل وعیال فوج کے رہائشی مراکز، نیز علماء، فقہاء اور مبلغین وواعظین کے اجتماع کا ٹھکانہ بن چکے تھے۔ [2] (۵) نو آبادیاتی تعمیر و ترقی اور بحرانوں کا حل ۱۔ نو آبادیاتی تعمیر و ترقی : سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی توسیع کی اور اس میں عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا گھر شامل کرلیا، توسیع میں دس (۱۰) ہاتھ قبلہ کی طرف، بیس (۲۰) ہاتھ مغرب کی طرف اور ستر (۷۰) ہاتھ شمال کی طرف بڑھایا، اس کی دوبارہ تعمیر کچی اینٹوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر کی۔ اس کے پائے لکڑی سے اور چھت کھجور کی ٹہنیوں سے بنائی، اور چھت کے اوپر کھجور کی پتیاں ڈال دیں تاکہ لوگ بارش سے محفوظ رہیں ۔ اسی طرح آپ نے مسجد کو رنگ روغن کرنے اور اس میں نقش ونگار کرنے سے منع کردیا تاکہ لوگوں کی نماز میں خلل نہ واقع ہو۔ [3] شروع سے مسجد نبوی کا فرش مٹی کا تھا، آپ نے پتھروں سے اسے پختہ کرایا تاکہ لوگ صاف اور بہترین جگہ پر نماز ادا کرسکیں ۔ [4] آپ نے مسجد حرام (خانہ کعبہ) میں بھی معمولی ترمیم کی، مقام ابراہیم جو خانہ کعبہ سے متصل تھا، وہاں سے ہٹا کر آج ہم جس جگہ پر اسے دیکھ رہے ہیں وہاں منتقل کردیا تاکہ طواف کرنے والوں اور نمازیوں کے لیے آسانی ہوجائے اور اس کے اوپر سائبان تعمیر کیا۔ [5] آپ نے حرم مکی سے متصل مکانات کو خرید کر انہیں منہدم کیا اور اس جگہ کو حرم مکی میں شامل کردیا، مسجد حرام کے کچھ پڑوسیوں نے اپنے مکانات کو فروخت کرنے سے انکار بھی کیا لیکن آپ نے ان مکانوں کو بھی گروا دیا، اور ان کا معاوضہ دیا جسے انہوں نے بعد میں قبول کرلیا۔ آپ نے قد آدم سے کچھ نیچے تک حرم کے چاروں طرف
[1] الادارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ: ۲/ ۷۱۲ [2] الادارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ: ۲/ ۷۱۲ [3] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۲۷۔ فتح الباری: ۴/ ۹۸ [4] أخبار عمر، ص: ۱۲۶ [5] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۲۷۔ فتح الباری: ۸/ ۱۶۹