کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 242
مضمون یہ تھا:
’’شام والوں کی آبادی بڑھ گئی ہے، شہر تنگ پڑگئے ہیں ، اور انہیں ایک معلم قرآن وعالم دین کی ضرورت ہے، لہٰذا اے امیر المومنین! آپ ایسے لوگوں کو بھیج کر میری مدد کیجیے۔‘‘
چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے معاذ بن جبل، عبادہ بن صامت، اور ابودرداء رضی اللہ عنہم کو بلایا اور انہیں اس کام کے لیے بھیج دیا اور نصیحت کی کہ اپنے درس وتدریس کا آغاز ’’حمص‘‘ سے کرو، کیونکہ وہاں مختلف طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ، وہاں کچھ لوگ بہت تیزی سے علم سیکھنے والے ہیں ، جب تم ایسا دیکھو تو اس طرح کے لوگوں کی ایک جماعت کو تعلیم دو اور جب تم ان سے مطمئن ہوجاؤ تو تم میں سے کوئی ایک ان کے پاس رک جائے اور ایک صاحب دمشق چلا جائے، جب کہ دوسرا فلسطین۔
بہرحال وہ لوگ ’’حمص‘‘ آئے، وہاں قیام کیا، اور جب ایک جماعت کا علمی مقام دیکھ کر مطمئن ہوگئے تو وہاں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ مقیم ہوگئے، پھر ابودرداء رضی اللہ عنہ دمشق اور معاذ رضی اللہ عنہ فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے۔ [1]
مفتوحہ علاقوں میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جن علمی مدارس کی بنیاد رکھی تھی وہ مدارس لوگوں کی تعلیم وتربیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ شامی درس گاہ کی ذمہ داری معاذ، ابودرداء، اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ کے کندھوں پر تھی۔ دمشق کی مسجد میں ابودرداء رضی اللہ عنہ کا بہت بڑا علمی حلقہ ہوتا تھا، اس میں ۱۶۰۰ سے زائد لوگ حاضر ہوتے تھے، وہ دس دس آیتیں پڑھتے تھے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ نکلنے کی کوشش کرتے تھے اور ابودرداء کھڑے ہو کر قراء ات اور لہجوں کے بارے میں فتویٰ دیتے تھے۔ [2]
۶: مصری درس گاہ:
یوں تو فاتح مصر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے لشکر میں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شریک تھے، لیکن مصر کے علمی حلقوں میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے جو مقام بنایا دوسرے صحابہ اس مقام تک نہ پہنچ سکے، مصر والوں نے عقبہ رضی اللہ عنہ کو عزت ومحبت سے نوازا، ان سے احادیث روایت کیں اور ان کی صحبت اختیار کی، حتیٰ کہ سعد بن ابراہیم کا بیان ہے کہ مصر والوں کو عقبہ رضی اللہ عنہ سے احادیث روایت کرنا اتنا ہی محبوب تھا جتنا کہ کوفہ والوں کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے۔[3]
مصریوں نے متعدد صحابہ کرام سے علم حاصل کیا، ان میں زیادہ مشہور ابوالخیر مرشد بن عبداللہ الیزنی ہیں ۔ انہوں نے عقبہ، عمرو بن عاص [4] اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور ان سے علم سیکھا، مصر میں دینی درس گاہوں کے یہ چند اہم مؤسسین ہیں کہ جن کی درس گاہوں کے وجود و ترقی میں اسلامی فتوحات کی تحریک کا خاصا اثر رہا، اور یہ کسی پر مخفی نہیں کہ ان مدارس کی ابتدا ہی سے عمر رضی اللہ عنہ کی ان پر نگرانی
[1] الانصار فی العصر الراشدی، ص: ۲۵۹
[2] غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، ابن الجوزی: ۱/ ۶۰۷
[3] تفسیر التابعین: ۱/ ۵۴۰، ۵۴۱
[4] حسن المحاضرۃ: ۱/ ۲۹۶