کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 241
جہاں تک انس بن مالک النجاری الخزرجی رضی اللہ عنہ کی بصرہ کی زندگی کے تعارف کی بات ہے تو معلوم ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے، خادم رسول کہے جاتے تھے اور اس پر فخر محسوس کرتے تھے اور انہیں اس کا حق بھی تھا۔ [1] وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی اس وقت میں ایک بچہ تھا۔[2] نیز کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو میں دس سال کا لڑکا تھا اور جب آپ کی وفات ہوئی اس وقت میں بیس سال کا نوجوان تھا۔ [3] انس بن مالک کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ مال واولاد اور درازیِ عمر کی دعا کی تھی۔ آپ نے کہا تھا: (( اَللّٰہُمَّ أَکْثِرْ مَالَہٗ وَوَلَدَہٗ وَبَارِکْ لَہٗ فِیْہِ۔)) [4] ’’اے اللہ! اس کے مال واولاد میں اضافہ کردے اور اس میں برکت عطا فرما۔‘‘ ۴: کوفی درس گاہ: کوفہ میں بیعت رضوان کے شرکاء میں سے تین سو (۳۰۰) اور بدری صحابہ میں سے ستر (۷۰) لوگوں نے سکونت اختیار کی۔ کوفہ والوں کو مخاطب کرتے ہوئے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ اے باشندگان کوفہ! تم لوگ عرب کی جان اور اس کا دماغ ہو، میرا تیر ہو جس کے ذریعہ سے اپنے اوپر آنے والے حملوں کا دفاع کرتا ہوں ، میں تمہارے پاس عبداللہ بن مسعود کو بھیج رہا ہوں ۔ میں نے تمہارے لیے یہی پسند کیا ہے، اور تم لوگوں کو خود پر ترجیح دی ہے۔ [5] کوفہ کی درس گاہ سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کافی متاثر تھی اور اپنے استاذ کی اقتدا وپیروی کرنے میں دیگر تمام درس گاہوں سے منفرد تھی، یہاں تک کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے شاگرد آپ کی اقتدا پر جمے رہے، اور ایک لمبے زمانہ تک کوفہ آپ کے علم وعمل پر قائم رہا۔ [6] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فقہ فاروقی سے بہت متاثر تھے، ان کی بات کے سامنے اپنی بات کو چھوڑ دیتے، اور کہتے تھے: اگر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا علم ایک پلڑے میں اور پوری دنیا والوں کا علم دوسرے پلڑے میں ہو تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا علم بھاری پڑ جائے گا۔ [7] ۵: شامی درس گاہ: ملک شام فتح ہونے کے بعد یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خط تحریر کیا اس کا
[1] تہذیب الاسماء واللغات: ۱/ ۱۲۷ [2] تفسیر التابعین: ۱/ ۴۲۳ [3] صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۰۲۹ [4] صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۴۸۱ [5] مجمع الزوائد: ۹/ ۲۹۱۔ اس کی سند میں حارثہ کے علاوہ بقیہ تمام راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں ، اور حارثہ بھی ثقہ ہیں ۔ [6] تفسیر التابعین: ۱/ ۴۶۲ [7] العلم لابی حنیفۃ، ص: ۱۲۳۔ تفسیر التابعین: ۱/ ۴۶۳