کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 239
ہے کہ الگ الگ چھوٹی چھوٹی جلدیں ان کے فتاویٰ کی تیار ہوسکتی ہیں ۔ [1] مدینہ مہبط وحی و تشریع تھا، خلفائے راشدین کے دور خلافت تک کوئی شہر اس کا مقابل نہ تھا۔ خلفائے راشدین کے دور میں مدینہ فقہاء صحابہ کا مرکز تھا، ان میں سب سے آگے عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مدینہ جن فقہی ذخائر سے مالا مال ہوا بہرحال اس کا سبب عمر رضی اللہ عنہ کی الہام یافتہ شخصیت ہی تھی۔ ان کے حق میں اس کامیابی کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دے دی تھی جب دیکھا کہ وہ بیشتر باتوں میں ربّ کی مرضی کے مطابق رائے و مشورہ دیتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسلامی ملک کے دارالخلافہ میں ایسا مدرسہ تعمیر کیا تھا جس سے علماء، مبلغین، دعوتی کارکن، حکمران اور قاضی وجج فارغ ہوئے اور عالم اسلام میں پائے جانے والے اوّلین علمی مدارس میں ہمیں اس فاروقی مدرسہ کا کافی اثر نظر آرہا ہے، اس لیے کہ تمام مؤسسین مدارس ومراکز علمیہ تقریباً فاروقی فقہ وبصیرت سے متاثر ہوئے ہیں ۔ لہٰذا اب ان علمی مدارس کے بارے میں مختصراً معلومات قارئین کی پیش خدمت ہیں : ۱: مکی درس گاہ: مسلمانوں کے دلوں میں مکی مدرسہ کا بڑا احترام تھا، خواہ وہ مکہ کے باشندے ہوں یا بلد حرام کی زیارت کرنے والے اور حج وعمرہ کرنے والے، ہر مومن جس نے مکہ کو دیکھا یا اسے دیکھنے کی کوشش کی، اس کے دل کو اپنی طرف موڑ لیا۔ صحابہ کرام کے زمانے میں مکہ میں علم کا زور کم تھا، لیکن ان کے آخری اور تابعین کے ابتدائی دور میں نیز تبع تابعین جیسے ابن ابی نجیح، اور ابن جریج [2] کے زمانے میں مکہ میں علم کا زور ہوا۔ البتہ مکہ کو یہ خصوصیت ملی کہ اسے ترجمان القرآن اور حبر الامت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، جن کی تمام تر توجہات اور کوششیں علم تفسیر پر مرکوز تھیں اور اپنے شاگردوں کو اسی کی تربیت دیتے تھے۔ پھر تابعین میں ایسے ائمہ وعلماء پیدا ہوئے جو دیگر تفسیری مدارس کے طلبہ پر سبقت لے گئے۔ علمائے محققین نے اس مکی مدرسہ کی برتری اور نمایاں کارکردگی کے اسباب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی امامت واستاذی کو کلیدی مقام دیا ہے۔ ۲: مدنی درس گاہ: مدینہ کو خصوصی حیثیت دینے، اسے فقہ وفتاویٰ اور علوم شرعیہ کا مرکز بنانے میں فاروقی اقدام اور خالص علمی زندگی کے لیے جن لوگوں نے خود کو وقف کیا تھا، ان تمام چیزوں کے بارے میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ہمیں تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں ۔ زید بن ثابت کو عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں روک لیا تھا۔ اس لیے ان کے شاگردوں کی تعداد بھی زیادہ رہی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو مختلف شہروں میں بھیج دیا، البتہ زید بن
[1] المدینۃ النبویۃ فجر الإسلام والعصر الراشدی: ۲/ ۴۵ [2] الإعلان والتوبیخ لمن ذم التاریخ، ص: ۲۹۲