کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 238
’’کوئی عورت نہ گودنا گودے اور نہ کوئی عورت گودنا گد وائے۔‘‘ ۲: طلب علم پر رغبت دلانے والے فاروقی اقوال : آپ نے ایک مرتبہ فرمایا: ’’لوگو! کتاب کا خزانہ ہوجاؤ، اور علم کے چشمے بن جاؤ، اور روزانہ اللہ سے روزی مانگو، اگر تمہارے پاس بہت زیادہ روزی نہیں تو کوئی نقصان نہیں ۔‘‘[1] اور فرمایا: ’’علم سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ، وقار اور سنجیدگی سیکھو، جس سے تم نے علم سیکھا ہے، اس سے خاکساری سے ملو اور جسے تم نے علم سکھایا ہے اس کے لیے بھی خاکسار رہو، جابر ومتکبر علماء میں سے نہ بنو کہ تمہاری جہالت کی وجہ سے تمہارا علم چلا جائے۔‘‘ [2] آپ نے عالم کی لغزش وگمراہی سے ڈراتے ہوئے کہا: عالم کی بے راہ روی، منافق کی قرآن سے کٹ حجتی، اور گمراہ کرنے والے ائمہ کی گمراہی اسلام کو ڈھا دے گی۔ [3] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مدینۃ النبی صلي الله عليه وسلم کو فقہ وفتاویٰ کا مرکز بنانا سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مدینہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا … خصوصاً ان صحابہ کا جنہوں نے ابتدائی مرحلہ میں اسلام کی طرف سبقت کی تھی … انسٹیٹیوٹ (ایوان علم وفن) تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی بھلائی اور اس ضرورت کے پیش نظر ان کو اپنے پاس روک لیا تھا کہ امت کے مسائل کی سیاست وتدبیر میں وہ لوگ آپ کے معاون ہوں گے۔ آپ نے ان لوگوں کو ان کے علم سے فائدہ اٹھانے اور ان کے مشورہ وخیالات سے رہنمائی حاصل کرنے کی نیت سے ان کے اخلاص پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے پاس روکا تھا۔ اس طرح ان صحابہ کرام کا علم مدینہ میں باقی رہا اور فتویٰ دینے والے فقہاء صحابہ کی تعداد (۱۳۰) تک پہنچ گئی۔ کثرت سے فتویٰ دینے والے سات لوگ تھے۔ ان کے نام ہیں : عمر، علی، عبداللہ بن مسعود، عائشہ، زید بن ثابت، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین۔ ابومحمد بن حزم کا کہنا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے فتویٰ کی الگ الگ ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں ۔ [4] اور جن صحابہ کے فتاویٰ متوسط تعداد ومقدار میں ہیں ان میں ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس لیے کہ وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مختصر مدت تک زندہ رہے، پھر وفات پاگئے۔ اسی طرح اس زمرہ میں ام سلمہ، انس بن مالک، ابوسعید خدری، ابوہریرہ، عثمان بن عفان، عبداللہ بن زبیر، ابوموسیٰ اشعری، سعد بن ابی وقاص، جابر بن عبداللہ، معاذ بن جبل، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف، عمران بن حصین، اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں ۔ محققین کا کہنا
[1] فرائد الکلام، ص: ۱۵۹۔ البیان والتبیین، جاحظ: ۲/ ۳۰۳ [2] أخبار عمر، ص: ۲۶۳۔ محض الصواب: ۲/ ۶۸۶ [3] محض الصواب: ۲/ ۷۱۷ [4] المدینۃ النبویۃ فجر الإسلام والعصر الراشدی: ۲/ ۴۵