کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 236
کیا اپنے اونٹ پر اتنا بوجھ لادتے ہو جسے اٹھانے کي وہ طاقت نہیں رکھتا؟ … مسیب بن دارم سے روایت ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ایک ساربان (اونٹ کے مالک) کو مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے: ’’تم نے اپنے اونٹ پر اتنا بوجھ لاد دیا ہے جسے اٹھانے کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔‘‘ [1]
کیا تم نہیں جانتے کہ اس کا بھي تم پر حق ہے؟…احنف بن قیس کا بیان ہے کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک وفد کی شکل میں فتح عظیم کی خوش خبری لے کر آئے، آپ نے پوچھا: آپ لوگ کہاں ٹھہرے؟ میں نے کہا کہ فلاں جگہ۔ پھر آپ میرے ساتھ چل پڑے یہاں تک کہ ہمارے سواری کے اونٹوں کے قریب تک پہنچے اور ایک ایک کو غور سے دیکھنے کے بعد فرماتے: کیا تم اپنی ان سواریوں کے بارے میں اللہ سے خوف نہیں کھاتے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ان کا بھی تم پر حق ہے؟ انہیں کھلا کیوں نہ چھوڑ دیا کہ گھاس وغیرہ چرتے۔ [2]
عمر رضی اللہ عنہ کي خواہش پوري کرنے کے لیے تو نے ایک چوپائے کو عذاب دے دیا: … ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ نے تازہ مچھلی کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ کے غلام ’’یرفا‘‘ نے مچھلی لانے میں چار دن لگا دئیے، دو دن جاتے ہوئے اور دو دن آتے ہوئے اور ایک ٹوکرا مچھلیاں خرید کر لایا۔ پھر ’’یرفا‘‘ سواری کے پاس کھڑے ہو کر اس کے جسم سے پسینہ صاف کرنے لگا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے سواری کو دیکھ کر فرمایا: عمر کی خواہش پوری کرنے کے لیے تو نے ایک جانور کو عذاب میں مبتلا کر ڈالا۔ اللہ کی قسم عمر! اس (مچھلی) کو چکھ نہیں سکتا۔ [3]
۶: عہد فاروقی میں زلزلہ :
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک بار زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا: اے لوگو! یہ زلزلہ تمہاری کسی نئی بدعملی ہی کی وجہ سے آیا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر دوبارہ ایسا زلزلہ آیا تو تمہارے ساتھ ہرگز نہ رہوں گا۔ [4]
(۴)
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی علم، علماء اور مبلغین اسلام پر خصوصی توجہ
۱: حدیث قبول کرنے میں احتیاط، علمی مذاکرہ، اور نامعلوم مسائل کے بارے میں استفسار :
حدیث قبول کرنے میں احتیاط: …ایک مرتبہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آنے کی اجازت مانگی، لیکن اجازت نہ ملی … شاید عمر رضی اللہ عنہ کسی کام میں مشغول تھے … ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ
[1] محض الصواب: ۲/ ۴۶۹
[2] نظام الحکم فی الشریعۃ والتاریخ: ۲/ ۶۰۵
[3] الریاض النضرۃ، ص: ۴۰۸
[4] فرائد الکلام، ص: ۱۴۰۔ بحوالہ: الداء والدواء، ابن القیم، ص: ۵۳