کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 235
آپ اس کے قریب گئے تو اندر سے کراہنے کی آواز آئی، جب کہ باہر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ آپ اس کے قریب گئے اور سلام کیا، پھر پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں ایک بدوی ہوں ، امیر المومنین سے ملنے کے لیے آیا ہوں تاکہ ان کے احسان وکرم سے نوازا جاؤں ۔ آپ نے پوچھا: میں گھر میں جو آواز سن رہا ہوں یہ کیسی آواز ہے؟ اس نے کہا: اللہ تم پر رحم کرے، تم کو اس سے کیا مطلب۔ آپ نے کہا: بتاؤ کیا بات ہے؟ اس نے بتایا: میری عورت درد زہ میں مبتلا ہے۔ آپ نے پوچھا: کیا اس کے پاس کوئی ہے؟ اس نے کہا: نہیں ۔ آپ فوراً گھر آئے اور اپنی بیوی امّ کلثوم بنت علی سے کہا: کیا تم ثواب کمانا چاہتی ہو، اللہ نے اسے خود تم تک پہنچایا ہے؟ انہوں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ آپ نے بتایا: ایک اجنبی عورت درد زہ میں مبتلا ہے اور اس کے پاس کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: اگر آپ راضی ہیں تو میں ضرور چلوں گی۔ آپ نے فرمایا: تو پھر بچے کی ولادت کے وقت کپڑے اور تیل وغیرہ کی جو ضرورت پڑتی ہے اسے لے لو اور ایک ہنڈیا، چربی اور تھوڑا سا غلہ بھی لے آؤ۔ امّ کلثوم سب کچھ لے کر آئیں ۔ آپ نے کہا: چلو اب چلیں ۔ آپ نے ہنڈیا اٹھائی اور وہ پیچھے پیچھے چلیں ۔ جب آپ خیمہ کے پاس پہنچے تو امّ کلثوم سے کہا: عورت کے پاس جاؤ اور خود آکر آدمی کے پاس بیٹھ گئے، آپ نے اس سے کہا: آگ جلاؤ، اس نے آگ جلائی، ہنڈیا آگ کے اوپر رکھی یہاں تک کہ ہنڈیا گرم ہوگئی۔ اتنے میں عورت کو ولادت ہوگئی۔ تو آپ کی بیوی نے کہا: اے امیر المومنین اپنے ساتھی کو لڑکے کی خوش خبری دیجیے۔ جب بدوی نے امّ کلثوم کی زبان سے ’’امیر المومنین‘‘ کا لفظ سنا، تو جیسے ڈر گیا، اور تھوڑا تھوڑا آپ سے پیچھے ہٹنے لگا۔ آپ نے اس سے کہا: جیسے تھے اسی طرح اپنی جگہ بیٹھے رہو۔ پھر آپ ہنڈیا اٹھا کر دروازے پر لائے اور اپنی بیوی سے کہا: عورت کو کھلا کر خوب آسودہ کردو۔ چنانچہ انہوں نے اسی طرح کیا، پھر ہنڈیا کو اندر سے نکال کر باہر دروازے پر رکھ دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور اسے لا کر آدمی کے سامنے رکھ دیا اور کہا: کھاؤ تم پوری رات جاگتے رہے ہو اور اپنی بیوی سے کہا: چلو نکلو، اور آدمی سے کہا: جب صبح ہو تو میرے پاس آنا، تمہیں تمہارے فائدہ کی چیزیں دلواؤں گا۔ جب صبح ہوئی تو وہ آیا، تو آپ نے اس کے لڑکے کا وظیفہ جاری کیا اور کچھ عطیہ بھی دیا۔ [1] (مزید تفصیل ملاحظہ ہو، سیرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ : ۲۹۱، از ڈاکٹر محمد الصلابی)
۵: جانوروں پر شفقت اور رحم دلی:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان کردیا تھا کہ آپ اس خچر تک کے ذمہ دار ہیں جو راستہ خراب ہونے کی وجہ سے عراق میں پھسل کر گر گیا۔ اس مقام پر سیرت فاروق کے چند ایسے درخشاں ابواب کا ذکر کیا جا رہا ہے جو انسانی تاریخ کے حافظہ میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/ ۱۴۰۔