کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 234
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آج رات ان کی نگرانی وپہرہ داری میں تم ہمارا ساتھ دو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں ضرور ساتھ دوں گا۔ چنانچہ دونوں نے نگرانی کرتے ہوئے شب بیداری کی اور باری باری نماز پڑھتے رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے قافلہ سے ایک بچہ کے رونے کی آواز سنی، آپ اس کے پاس گئے اور اس کی ماں سے کہا: اللہ سے ڈر اور اپنے بچے پر رحم کر، اتنا کہہ کر آپ اپنی جگہ واپس لوٹ آئے۔ رات کے آخری حصہ میں آپ نے پھر بچے کے رونے کی آواز سنی، آپ اس کی ماں کے پاس آئے اور کہا: تیری بربادی ہو، تو بہت بری ماں ہے۔ کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارا بچہ پوری رات روتا رہا؟ اس نے کہا: اے اللہ کے بندے، میں اس کا دودھ چھڑانا چاہتی ہوں لیکن وہ نہیں چھوڑتا۔ آپ نے پوچھا: تم ایسا کیوں کررہی ہو؟ اس نے کہا: اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ بچے کا وظیفہ اسی وقت جاری کرتے ہیں جب وہ دودھ پینا چھوڑ دے … آپ نے یہ قانون بنایا تھا کہ ہر اس بچے کو وظیفہ دیا جائے جو دودھ پینا چھوڑ چکا ہو … آپ نے پوچھا: تمہارے اس لڑکے کی کتنی عمر ہے؟ اس نے کہا: اتنے اتنے مہینے کا ہے۔ تو آپ نے فرمایا: تیرا برا ہو، اسے دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کر اور جب آپ نے فجر کی نماز اس طرح مکمل کی کہ رونے کی وجہ سے آپ کی قراء ت صاف سنائی نہیں دیتی تھی تو نماز کے بعد فرمایا کہ بربادی ہے عمر کی! اس نے کتنے مسلمان بچوں کا قتل کرڈالا، پھر آپ نے اعلان کرنے والے سے اعلان کروایا: اپنے بچوں کا دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کرو، ہم مسلمان بچے کا وظیفہ اس کی تاریخ پیدائش ہی سے مقرر کردیتے ہیں اور پھر پوری حکومت میں یہی فرمان بھیج دیا۔ [1] مجاہدین کے لیے ان کي بیویوں سے جدائي کي مدت مقرر کرنا: …ایک روایت میں آیا ہے کہ پھر آپ اپنی صاحبزادی حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے، انہوں نے پوچھا: امیرالمومنین! اس وقت آپ کو آنے کی کیا ضرورت پڑگئی؟ آپ نے کہا: اے میری بیٹی! عورت اپنے شوہر کی جدائی کب تک برداشت کرسکتی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ مہینہ، دو مہینہ اور زیادہ سے زیادہ تین مہینہ تک، چوتھے مہینے میں صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم نافذ کردیا کہ مجاہدین کو (ان کے اہل وعیال سے) چار مہینوں سے زیادہ نہ روکا جائے۔ [2] یہ ہے ایک مجاہد کے لیے اس کی بیوی سے جدائی کی مدت متعین کرنے کی فاروقی سیاست، جس کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔ [3] اے امیر المومنین اپنے ساتھي کو لڑکے کي خوش خبري دیجیے: …ایک رات عمر رضی اللہ عنہ گشت لگا رہے تھے، مدینہ کے ایک میدان میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں اونی خیمہ لگا ہوا ہے جو کل نہیں تھا۔
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/ ۱۴۰ [2] مناقب أمیر المومنین، ابن الجوزی، ص: ۸۹۔ أولیات الفاروق، ص: ۲۸۹ [3] أولیات الفاروق، ص: ۲۸۹