کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 233
چمڑے کے تھے۔ آپ کے جسم پر نہ تو قمیض تھی اور نہ چادر، سر پر پگڑی ہوتی اور ہاتھ میں درّہ اور اسی طرح مدینہ طیبہ کے بازار میں گھومتے۔ [1]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے قتادہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت ہوئے تو پیوند لگا ہوا اونی کھردرا جبہ پہنتے، بعض پیوند چمڑے کے ہوتے اور اسی حالت میں بازار کا چکر لگاتے اور آپ کے کندھے پر درّہ ہوتا جس سے قصور واروں کو سزا دیتے۔ [2]
عمر رضی اللہ عنہ نے خرید وفروخت میں تاجروں کے لیے حلال وحرام کي معرفت لازم کردي: …عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایسے آدمی کو درّے لگاتے تھے جو بازار میں تجارت کرنے آتا اور لین دین کے متعلق شرعی احکامات نہ جانتاہوتا اور اسے کہتے: جو شخص سود کو نہ پہچانتا ہو وہ ہمارے بازار میں نہ بیٹھے۔ [3]
آپ بازار کا چکر لگاتے اور بعض تاجروں کو یہ کہتے ہوئے درّے لگاتے کہ ہمارے بازار میں وہی بیچے جو تجارت کا شرعی علم رکھتا ہو، ورنہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سود کھا لے گا۔ [4]
۴: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی پہرے داری اور راتوں کا گشت:
بلاشبہ راتوں کے گشت اور پہرے داری ہی سے پولیس کا وجود عمل میں آیا۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ خلافت صدیقی میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رات میں گشت کرنے اور پہرے داری کے امیر تھے اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بذات خود یہ ذمہ داری سنبھالی۔ آپ اپنے ساتھ اپنے غلام اسلم کو اور کبھی کبھی عبدالرحمن بن عوف کو لے لیتے تھے۔ پہرے داری کا مطلب ومقصد یہ ہے کہ رات میں گشت لگا کر چوروں ، لٹیروں اور فسادیوں پر قابو پایا جاسکے۔ درحقیقت فاروقی گشت تاریخی حیثیت سے محکمہ پولیس کے منظم کرنے کا پہلا مرحلہ قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ شروع شروع میں سارے مسلمان دن میں اپنی حفاظت خود کرتے اور برائیوں کو روکتے تھے اور جب رات کو سو جاتے تو ان کی حفاظت کے لیے پہرے دار شب بیداری کرتے، لیکن جب فسادیوں کی کثرت ہوگئی اور انہوں نے دن کی روشنی میں کھلے عام برائیاں شروع کردیں تو اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ دن میں بھی ان پر نگاہ رکھی جائے، چنانچہ اس طرح پولیس کا وجود عمل میں آیا، گویا کہ میری تعبیر صحیح ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پولیس ہمہ وقت کی پہرے دار ومحافظ ہے۔ [5]
شیر خوار بچوں کو جلدي دودھ چھڑانے کی ممانعت:…عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے غلام اسلم سے روایت ہے کہ مدینہ سے باہر تاجروں کا ایک قافلہ آیا اور انہوں نے عیدگاہ میں پڑاؤ ڈالا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے
[1] الطبقات الکبرٰی: ۳/ ۳۳۰
[2] تاریخ الإسلام، عہد الخلفاء الراشدین، ص: ۲۶۸
[3] نظام الحکومۃ الإسلامیۃ، الکتانی: ۲/ ۱۷
[4] نظام الحکومۃ الإسلامیۃ، الکتانی: ۲/ ۱۷
[5] عبقریۃ الإسلام فی اصول الحکم، ص: ۳۲۲