کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 232
٭ حج کے مقامات مقدسہ میں ٹھہر کر ان کے عزت و احترام کا مظاہرہ کرنا۔ ٭ مشروع ارکان حج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنا۔ ٭ نمازوں میں امامت کرنا اور مشروع خطبے دینا۔ [1] آپ لوگوں کو حج کی رغبت دلاتے اور انہیں اس کا حکم دیتے، حتیٰ کہ آپ نے کہا: میں نے ارادہ کیا کہ کچھ لوگوں کو شہروں میں اس لیے بھیجوں تاکہ وہ دیکھیں کہ جس کے پاس حج کرنے کی وسعت ہے اور اس نے حج نہ کیا ہو تو وہ اس پر جزیہ لگا دیں ۔ [2] آپ کے بارے میں ثابت ہے کہ ہر سال غلاف کعبہ کا صدقہ کرتے اور اسے حاجیوں میں تقسیم کر دیتے۔[3] آپ ذکر الٰہی کے شیدائیوں میں سے تھے، آپ نے ذکر الٰہی کے بارے میں کہا: اپنے لیے ذکر الٰہی لازم کرلو اس لیے کہ یہ شفا ہے اور خود کو لوگوں پر تذکرہ وتبصرہ سے بچاؤ اس لیے کہ یہ بیماری ہے۔ [4] آپ کہا کرتے تھے: تنہائی پسند بنو۔ [5] ۳: تجارت اور بازاروں کا اہتمام : عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس بات کے حریص رہے کہ بازار میں لین دین کرنے والوں کے حالات سے باخبر رہیں ، انہیں اسلامی شریعت کے مطابق لین دین کرنے پر ابھاریں ۔ آپ اپنے علاوہ کسی کو بازار کی نگرانی پرمامور کردیتے تھے: مثلاً آپ نے سائب بن یزید اور عبداللہ بن عتبہ بن مسعود وغیرہ کو مدینہ کے بازار کی نگرانی پر مامور کیا تھا۔ [6] ایک محقق یہ ملاحظہ کرسکتا ہے کہ اسلامی حکومت میں احتساب کا نظام اسلامی شریعت کے مطابق وجود میں آیا اور اسلامی معاشرہ کی دیگر ترقیات کے ساتھ ساتھ اس میں بھی ترقی ہوئی۔ یہاں تک کہ ایک ایسی سلطنت وجود میں آئی جس کے حاکم میں چند اسلامی شرائط کا پایا جانا ضروری قرار پایا، نیز کس کس کا محاسبہ کیا جائے اور کن کن چیزوں میں محاسبہ کیا جائے؟ اس کے لیے کچھ شرائط ضروری قرار دی گئیں ۔ [7] سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بازاری معاملات کا محاسبہ کرنے میں بھی بہت سخت واقع ہوئے تھے۔ آپ ہاتھ میں درّہ لیے ہوئے بازار میں گھومتے تھے اور جسے اس کا مستحق سمجھتے اس کی اس سے سرزنش کرتے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے جسم پر جو تہ بند دیکھا اس میں چودہ پیوند لگے تھے، کچھ پیوند
[1] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۳۸۳ [2] فرائد الکلام، ص: ۱۷۳ [3] الفتاوٰی: ۳۱/ ۱۴ [4] تفسیر قرطبی: ۱۶/ ۳۳۶۔ محض الصواب: ۲/ ۶۷۷ [5] الزہد، وکیع: ۲/ ۵۱۷۔ یہ روایت سنداً صحیح ہے۔ [6] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۴۰۸ [7] الرقابۃ المالیۃ فی الإسلام، د/ عوف الکفراوی، ص: ۶۶