کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 231
عبادت کا سبب بن جاتی تو عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے اسے کاٹ ہی دیا گیا۔ [1] دانیال علیہ السلام کي قبر: …جب ’’تُسْتَرْ‘‘ میں دانیال علیہ السلام کی قبر ملی تو اس کے بارے میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھا، سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے جواباً تحریر کیا کہ دن میں تیرہ (۱۳) قبریں کھدواؤ اور رات میں ان قبروں میں سے کسی ایک میں ان کی لاش دفن کردو اور ان کی قبر میں خوب مٹی ڈال دینا تاکہ لوگ اس سے فتنہ میں نہ پڑ جائیں ۔ [2] (مزید تفصیل ملاحظہ ہو، سیرت عمر بن خطاب: ۲۶۴) ۲: عبادات کا اہتمام : صلوٰۃ (نماز): …نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے، جماعت سے پیچھے رہ جانے والوں کو خوب ڈانٹ پلاتے اور نماز چھوڑنے والوں پر سخت گرفت کرتے تھے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ کے طریقے پر چلتے رہے، اور جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہوئے تو نماز کے معاملے میں سختی کی، لوگوں کو نماز کی تاکید کی، اور اسے چھوڑنے والوں کو سزائیں دیں ۔ اپنے گورنروں کے پاس یہ عمومی فرمان بھیجا کہ ’’میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم کام نماز ہے، جس نے خود اس کی پابندی کی اور دوسروں سے کروائی، اس نے اپنا دین محفوظ کرلیا، اور جس نے نماز ضائع کردی وہ دوسری چیزوں کو بدرجہ اولیٰ ضائع کرنے والا ہوگا۔‘‘ [3] آپ خشوع وخضوع والی نماز کے بہت حریص تھے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، اور تین صفوں کے پیچھے میں نے آپ کے رونے کی آواز سنی۔ [4] زکوٰۃ،حج اور رمضان: …عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے زکوٰۃ پر بھی خصوصی توجہ دی اور اس کے طریقہ کو منظم کیا اور یہ فریضہ ملک کی آمدنی کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ بن گیا۔ اس فریضہ کے متعلق ہم ان شاء اللہ تفصیلی بحث ’’مالیاتی ادارہ‘‘ کے عنوان سے اگلے صفحات میں بیان کریں گے۔ البتہ یہاں حج کے متعلق کچھ باتیں قابل ذکر ہیں ۔ آپ اپنی پوری مدت خلافت میں لوگوں کو حج کراتے رہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپ نے دس حج کیے، یعنی پوری مدت خلافت میں اور بعض نے کہا کہ نو سال تک حج کیا۔ [5] خلیفہ یا ان کے قائم مقام عمال کی ذمہ داریوں میں یہ چند اُمور شامل ہیں : ٭ لوگوں کو حج کے اوقات کی اطلاع دینا اور مقامات مقدسہ تک لے جانا۔ ٭ شریعت کے مطابق حج کی ادائیگی کرنا۔
[1] التاریخ الاسلامی: ۱۹،۲۰/ ۲۶۰ [2] الفتاوٰی : ۱۵/ ۹۰ [3] الفتاوٰی : ۱۰/ ۲۴۹۔ موطأ مالک مع شرحہ أوجز المسالک: ۱/ ۱۵۴ [4] حلیۃ الاولیاء: ۱/ ۵۲ [5] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۳۸۲