کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 228
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا امیر المومنین کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا جب کہ وہ ایک مقبول عام، صاحب اقبال فاتح وسپہ سالار تھے اور ان کا اس طرح عاجزی کے ساتھ سپہ سالاری کے عہدہ سے اتر کر معمولی سپاہی بن جانا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی دنیا کی جنگی اور فوج کی سپہ سالاری کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ اس کے ساتھ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے دبدبہ کی بھی دلیل ہے اور یہ کہ ان کو کس درجہ تمام امور سلطنت اور فوج پر قابو تھا۔ [1] عمرو بن مرۃ [2] سے روایت ہے، فرمایا: قریش کا ایک آدمی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: ہمارے لیے نرم ہوجایئے، ہمارے دل آپ کے رعب سے بھر گئے ہیں ۔ آپ نے پوچھا: کیا اس میں ظلم ہے؟ اس نے کہا: نہیں ۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ میرا رعب تمہارے دلوں میں اور بڑھ جائے۔ [3] عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے ایک آیت کی تفسیر پوچھنے کے لیے پورے ایک سال تک سوچتا رہا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے اسے نہ پوچھ سکا۔ [4] ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عکرمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک حجام آپ کے بال تراش رہا تھا۔ آپ کافی بارعب تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے گلا صاف کرنے کے لیے کھنکھارا تو خوف کی وجہ سے حجام کی ہوا خارج ہوگئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے چالیس درہم دینے کا حکم دیا۔ [5] جب عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے دلوں میں اپنا رعب ودبدبہ دیکھتے تو کہتے: اے اللہ تو جانتا ہے کہ لوگ جتنا مجھ سے ڈرتے ہیں میں اس سے کہیں زیادہ تجھ سے خوف کھاتا ہوں ۔ [6] آخر الذکر واقعہ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک غلام اپنی آزادی کا مطالبہ کررہا ہے اور اس کا آقا انکار کررہا ہے اور حاکم وقت انصاف کرتے ہوئے غلام کی رائے کو نافذ کراتا ہے اور آقا کی بات کو چھوڑ دیتا ہے۔ ذرا سوچو! کہ تاریخ کے طول وعرض میں کیا ایسی کوئی مثال ملتی ہے۔ [7] ۵: معاشرہ میں بعض بے جا تصرفات پر پابندی: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زندگی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کی آئینہ دار تھی، اسی وجہ سے آپ کسی بھی غلط کردار یا بے جا تصرفات جس سے اسلامی معاشرہ میں برائیاں پیدا ہوں ، انہیں قطعاً برداشت نہ کرتے تھے۔ اس باب میں
[1] المرتضٰی، ابوالحسن علی الحسنی الندوی، ص: ۱۰۷۔ اردو طبع میں دیکھیے، ص: ۱۶۷ … مترجم ۔ [2] عمر بن مرۃ الشنی ، بصری ہیں ، مقبول ہیں ، چوتھے طبقہ کے ہیں ۔ التقریب ، ص: ۴۱۷ [3] مناقب عمر، ابن الجوزی، ص: ۱۳۵۔ محض الصواب: ۱/ ۲۷۳ [4] صحیح مسلم، کتاب الطلاق، حدیث نمبر: ۱۴۷۹ [5] طبقات ابن سعد: ۳/ ۲۸۷۔ سنداً یہ روایت منقطع ہے۔ مناقب عمر، ص: ۱۳۴ [6] مناقب عمر، ابن الجوزی، ص: ۱۳۴۔ یہ روایت سنداً منقطع ہے۔ [7] شہید المحراب، ص: ۲۲۲