کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 227
مجلس میں ایک آدمی کی ہوا خارج ہوئی اور ادھر نماز کا وقت ہوگیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں زور دے کر کہتا ہوں کہ جس کی ہوا خارج ہوئی ہے وہ اٹھے اور جا کر وضو کرلے تو جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین ہم سب کو حکم دیجیے کہ اٹھیں اور جا کر وضو کریں ۔ اس میں زیادہ عیب پوشی ہے۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ [1]
ایک غلام قریش کے گھرانے میں شادي کا پیغام دیتا ہے: …عمر رضی اللہ عنہ نے مختلف قبائل کو ایک دوسرے سے رشتہ نکاح قائم کرنے کی ہمت افزائی کی، تاکہ تمام قبائل میں باہمی محبت پیدا ہوجائے۔ یہاں تک کہ ایک غلام نے قریش کے ایک آدمی کو اس کی بہن سے نکاح کا پیغام دیا، لیکن قریشی نے انکار کردیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں کے درمیان دخل اندازی کی اور کہا: کیا وجہ ہے کہ تم اس سے نکاح کرنے سے انکار کرتے ہو؟ وہ با صلاحیت آدمی ہے، اس کے پاس دنیا کی بھلائی یعنی مال، اور آخرت کی بھلائی یعنی تقویٰ بھی ہے۔ اگر تمہاری بہن راضی ہو تو اس آدمی سے نکاح کردو۔ چنانچہ قریشی نے اپنی بہن کا نکاح اس غلام سے کردیا۔ [2]
۴: معاشرہ میں آپ کا رعب ودبدبہ اور لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے آپ کی تڑپ:
لوگوں کے دلوں میں عمر رضی اللہ عنہ کا احترام بھی تھا اور رعب بھی، ایسا رعب جو ایک آہنی عزم کے انسان ہی کا ہوسکتا ہے۔ اور اس کی روشن مثال یہ ہے کہ انہوں نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا پروانہ اس وقت جاری کیا جب ان کی شہرت بام عروج پر تھی۔ جنگ میں ان کی قیادت بلکہ محض موجودگی بھی کامیابی اور فتح مندی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی، ہر طرف سے ان کو مدح وتحسین کا خراج پیش کیا جا رہا تھا۔ ان کا قائدانہ وفاتحانہ اقبال اپنے نقطۂ عروج پر تھا، ایسے عالم میں اور ایسے وقت میں جب کہ مسلمانوں کو ان کی قیادت کی سخت ضرورت تھی، اور وہ ہر دل عزیز تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کرنے کا فیصلہ نافذ کردیا، اور یہ حکم اس وقت پہنچا جب مسلمان رومیوں کے مقابلہ میں جنگ یرموک کے میدان میں صف آرا تھے اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی، یہ ایسا نازک وقت تھا کہ اچھے اچھوں کے قدم ڈگمگا سکتے تھے اور نفس امّارہ بلکہ فطری خود داری بھی اپنا رنگ دکھا سکتی تھی، لیکن عمر رضی اللہ عنہ کا رعب وجلال اور خالد رضی اللہ عنہ کی قوت ایمانی تھی کہ حکم پاتے ہی ان کی زبان سے نکلا: ’’سمعا وطاعۃ لأمیر المومنین‘‘ ’’امیر المومنین کا حکم سر آنکھوں پر‘‘ اور جب ان سے کہا گیا کہ ایسے نازک موقع پر یہ عظیم تبدیلی لشکر اسلام اور مسلمانوں میں انتشار کی موجب ہوسکتی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ ’’جب تک عمر موجود ہیں کسی فتنہ کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ [3]
[1] الشیخان بروایت بلاذری، ص: ۲۱۹
[2] المرتضٰی للندوی، ص: ۱۰۶۔ نوٹ: یہ حوالہ غلط ہے، میں نے اصل کتاب کا مراجعہ کیا لیکن اس میں یہ واقعہ کہیں نہ ملا۔ (مترجم)
[3] المرتضٰی، ابوالحسن علی الحسنی الندوی، ص: ۱۰۷۔ اردو طبع، ص: ۱۶۶ واقعہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: کتاب الخراج، ابویوسف، ص: ۸۷ … مترجم