کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 226
ذکر کیا جاتاہے: جب لوگوں نے کفر کیا تو تم ایمان لائے، جب انہوں نے پیٹھ پھیري تو تم آگے آئے، جب انہوں نے بے وفائي کي تو تم نے وفاداري کا ثبوت دیا: …عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کو لے کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، آپ قبیلہ ’’طی‘‘ کے ہر فرد کے لیے دو ہزار درہم مقرر کرنے لگے، اور مجھے نظر انداز کردیا، میں آپ کے سامنے آکھڑا ہوا، لیکن آپ نے پھر نظر انداز کردیا، پھر میں بالکل آپ کی نگاہوں کے سامنے آکھڑا ہوا، لیکن آپ نے مجھ پر توجہ نہ دی۔ میں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ مجھے پہچانتے ہیں ؟ آپ ہنسنے لگے، یہاں تک کہ لوٹ پوٹ گئے، پھر کہا: ہاں ، اللہ کی قسم! تمہیں یقینا پہچانتا ہوں ، جب انہوں نے کفر کیا تب تم ایمان لائے، جب انہوں نے پیٹھ پھیری تب تم آگے آئے، جب انہوں نے بے وفائی کی تب تم نے وفاداری کا ثبوت دیا اور سب سے پہلی زکوٰۃ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے چہروں کو روشن کیا وہ قبیلہ طی کی زکوٰۃ تھی، تم اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔ پھر آپ نے عدی سے معذرت کی اور کہا: میں نے ان لوگوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا ہے جن کو فاقہ نے گھیر لیا ہے، حالانکہ وہ اپنی قوم کے سردار رہے ہیں اور یہ ان کا حق بنتا ہے۔ [1] اور ایک روایت میں ہے کہ عدی رضی اللہ عنہ نے کہا: تب مجھے کوئی پروا نہیں ۔ [2] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ، سیّدنا علي رضی اللہ عنہ کي پیشاني چومتے ہیں : …ایک آدمی عمر رضی اللہ عنہ کے پاس علی رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر آیا، عمر رضی اللہ عنہ جب معاملہ کے تصفیہ کے لیے بیٹھے تو علی رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوالحسن! اپنے حریف کے سامنے آؤ، علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ غصہ سے بھر گیا، عمر رضی اللہ عنہ نے معاملے کا تصفیہ کیا، اور پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابوالحسن کیا آپ اس وجہ سے غصہ ہوگئے کہ میں نے آپ کو آپ کے حریف کے برابر کھڑا کیا؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ اس لیے غصہ ہوں کہ آپ نے میرے اور میرے حریف کے درمیان انصاف نہیں کیا، آپ نے مجھ کو عزت دی اور مجھے میری کنیت سے یعنی ابوالحسن کہہ کر پکارا، جب کہ میرے حریف کو اس کی کنیت سے نہیں پکارا۔ (یعنی اس کا نام لیا) عمر رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر علی رضی اللہ عنہ کی پیشانی چوم لی، اور کہا: اللہ مجھے اس زمین پر باقی نہ رکھے جس پر ابوالحسن نہ ہوں ۔ [3] جریر بجلی رضی اللہ عنہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہیں : …عاصم بن بہدلہ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں ۔ اس نے کہا کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس تھے،
[1] صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۲۳۔ مسند أحمد، حدیث نمبر: ۳۱۶ [2] فتح الباری: ۷/ ۷۰۶۔ الخلافۃ الراشدۃ، د/ یحیٰی الیحیٰی، ص: ۲۹۷ [3] عمر بن الخطاب، صالح عبدالرحمن، ص: ۷۹