کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 225
(( خَیْرُ اُمَّتِی الْقَرْنُ الَّذِیْ أَنا فِیْہِ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہٗ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہٗ ، ثُمَّ یَجِیْئُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَتُہُمْ اَیْمَانُہُمْ ، یَشْہَدُوْنَ قَبْلَ اَنْ یُّسْتَشْہَدُوْا لَہُمْ فِیْ اَسْوَاقِہِمْ لَغَطٌ۔))[1] ’’میری امت کی بہترین صدی وہ ہے جس میں میں ہوں ، پھر اس کے بعد والی صدی، اور پھر جو اس کے بعد ہے۔ پھر ایسے لوگ آئیں گے کہ ان کی گواہیاں ان کی قسموں پر مقدم ہوں گی، گواہی مانگنے سے پہلے وہ گواہی دیں گے، اور ان کے بازاروں میں ہنگامہ ہوگا۔‘‘ تم اسے کیوں طلاق دے رہے ہو؟ …ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تم اسے کیوں طلاق دے رہے ہو؟ اس نے کہا: وہ مجھے محبوب نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا سارے گھر محبت ہی کی وجہ سے بنائے جاتے ہیں ؟ کہاں ہے نگرانی اور کہاں ہے حفاظت؟ [2] خنساء رضی اللہ عنہا کي اولاد کا وظیفہ: …جنگ قادسیہ کے موقع پر جب سیّدہ خنساء رضی اللہ عنہا کے چاروں بیٹے شہید ہوگئے اور عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: خنساء کو ان کے چاروں بیٹوں کا وظیفہ (پنشن) تاحیات دیتے رہو، پھر خنساء اپنی پوری زندگی اپنی اولاد میں سے ہر ایک کی طرف سے ہر مہینہ دو سو درہم لیتی رہیں ۔ [3] ۳: رعایا کے بہترین کارناموں کا لحاظ: سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے بہترین کارناموں کا لحاظ رکھتے تھے۔ آپ کے پاس مردم شناسی کا نہایت دقیق پیمانہ تھا، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’تم کو کسی آدمی کی شہرت دھوکے میں نہ ڈال دے، اچھا اور کامل آدمی وہ ہے جو امانت دار ہو اور لوگوں کی غیبت کرنے سے دُور رہے۔‘‘ [4] آپ یہ بھی کہتے تھے: ’’کسی شخص کی نماز اور اس کے روزے سے دھوکہ نہ کھاؤ، بلکہ اس کی دانائی اور سچائی کو دیکھو۔‘‘ اور ایک مرتبہ فرمایا: ’’مجھے تمہارے بارے میں دو قسم کے لوگوں سے کوئی خوف نہیں ہے: پکا سچا مومن کہ جس پر ایمانی علامات ظاہر ہوں اور کافر جس کا کفر واضح ہو۔ البتہ میں تمہارے بارے میں اس منافق سے ڈرتا ہوں جو ایمان کے پس پردہ غیر ایمانی عمل کرتا ہے۔‘‘ واقعات وشواہد بتاتے ہیں کہ خدمت اسلام کے لیے عظیم کارناموں کے بدلے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اللہ کے فضل واحسان سے اور اعزاز واحترام فاروقی سے نوازی گئی، اسی سلسلہ کے چند واقعات کو یہاں
[1] مجمع الزوائد: ۱۰/ ۹۱۔ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ [2] البیان والتبیین: ۲/ ۱۰۱۔ فرائد الکلام، ص: ۱۱۳ [3] الإدارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الإسلامیۃ، د/ سلیمان آل کمال: ۲/ ۷۶۴ [4] فقہ الائتلاف/ محمود محمد الخزندار، ص: ۱۶۴