کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 223
خلاصہ یہ کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے جناب عبداللہ بن عباس کی فضیلت ومرتبت کا اعتراف اور علم وفہم میں آپ کے بلند مقام کو ظاہر کرتے ہوئے ان کو کبار صحابہ کی مجلس میں شریک کیا۔
حافظ ابن کثیر نے نقل کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ عبداللہ بن عباس قرآن کے کتنے بہترین ترجمان ہیں ! اور جب وہ کہیں سے آتے دکھائی دیتے تو کہتے : وہ دیکھو بزرگوں کا جوان، استفسار کا عادی، اور سمجھ دار دل کا مالک آگیا۔ [1]
سچ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں کے درمیان تعلق باہمی محبت پر قائم تھا۔
(۳)
عمر رضی اللہ عنہ کی معاشرتی زندگی اور نظامِ احتساب کا اہتمام
معاشرتی زندگی
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی معاشرتی زندگی کتاب الٰہی اور سنت نبوی کی زندہ تصویر تھی، معاشرتی زندگی میں آپ کے افکار وکردار سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ کی سیرت اسلامی زندگی کا مجسم نمونہ تھی۔ ذیل میں آپ کے چند افکار وکردار کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اور خواتین کی خبر گیری:
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ مسلمان عورتوں ، لڑکیوں اور ضعیف خواتین کی خصوصی دیکھ بھال کرتے تھے، انہیں ان کا حق دیتے اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں ہونے دیتے تھے۔ جن خاندانوں کے مرد حضرات جہاد پر ہوتے ان کی تمام ضروریات پر نگاہ رکھتے، بیواؤں کے حقوق ان تک پہنچانے کے اس قدر حریص تھے کہ آپ نے یہاں تک کہہ دیا: ’’اگر اللہ نے مجھے صحیح سالم رکھا تو عراق کی کسی بیوہ کو محتاج نہ چھوڑوں گا جو میرے بعد کسی سے اپنی ضرورت مانگے۔‘‘ [2]
یہاں بعض ایسے واقعات نقل کیے جا رہے ہیں جو زمانے کی پیشانی پر نورانی حروف سے کندہ کیے ہوئے ہیں :
۲: ایک آدمی عام شاہراہ پر عورت سے بات کرتا ہے:
ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ راستے سے گزر رہے تھے، آپ نے ایک آدمی کو عورت سے بات کرتے ہوئے دیکھا تو اسے ایک درّہ لگایا۔ اس آدمی نے کہا: اے امیر المومنین یہ میری بیوی ہے۔ آپ نے اس سے کہا: تم اپنی بیوی
[1] البدایۃ والنہایۃ (۸/۳۰۳)۔
[2] صحیح التوثیق فی سیرۃ وحیاۃ الفاروق عمر بن الخطاب، ص: ۳۷۳