کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 222
لکھتے ہیں : ’’عمر رضی اللہ عنہ بڑی بڑی مہمات میں علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے بغیر کام نہیں کرتے تھے اور علی رضی اللہ عنہ بھی نہایت دوستانہ اور مخلصانہ مشورہ دیتے تھے اور جب بیت المقدس گئے تو کاروبار خلافت ان ہی کے ہاتھ دے کر گئے، اتحاد ویگانگت کا مرتبہ یہ تھا کہ علی رضی اللہ عنہ نے امّ کلثوم رضی اللہ عنہا کو جو فاطمہ زہراء کے بطن سے تھیں عمر رضی اللہ عنہ کے عقد میں دے دیا۔‘‘ [1]
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک فرزند کا نام عمر رکھا اور دوسرے کا نام ابوبکر اور تیسرے کا نام عثمان رکھا۔ [2] عام طور پر لوگ اپنے فرزندوں کے نام انہی لوگوں کے نام پر رکھتے ہیں جن سے دلی تعلق ہوتا ہے اور جن کو مثالی انسان سمجھتے ہیں ۔ [3]
۳۔ سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے فرزند عبداللہ رضی اللہ عنہ کا احترام:
’’عام الرمادۃ‘‘ کے موقع پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا یعنی عباس بن عبدالمطلب کو استسقاء کی نماز پڑھانے کا حکم دے کر پوری امت کے سامنے آپ کی فضیلت، احترام اور قدر ومنزلت کو ظاہر کردیا۔ پچھلے مباحث میں یہ بات گزر چکی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ کے لیے قسم کھائی تھی کہ ’’ان کا اسلام لانا مجھے میرے باپ کے اسلام لانے سے … اگر وہ اسلام لاتے … زیادہ محبوب ہے۔ اس لیے کہ عباس کا مسلمان ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب تھا۔‘‘ [4]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس کے بیٹے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک اتنے محبوب اور محترم تھے کہ انہیں بزرگ ترین بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کی مجلس میں شرکت کا موقع دیتے تھے، جب کہ عمر رضی اللہ عنہ کے دوسرے کئی بیٹے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ہم عمر تھے۔ لیکن وہ اس اعزاز سے نہیں نوازے گئے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بڑا بلند مقام تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بغوی [5] نے معجم الصحابہ میں زید بن اسلم کی سند سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پاس بلاتے اوراپنے پہلومیں بٹھاتے اور کہتے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک دن تمہیں بلایا، تمہارے سر پر ہاتھ پھیرا اور یہ دعا دی:
(( اَللّٰہُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاْوِیْلَ۔)) [6]
’’اے اللہ! اسے دین کی سمجھ عطا فرما، اور تاویل وتفسیر سکھا دے۔‘‘
[1] المرتضٰی، ابوالحسن علی حسنی ندوی، ص: ۱۱۹
[2] البدایۃ والنہایۃ، ابن کثیر: ۷/ ۳۳۱، ۳۳۲
[3] المرتضٰی، علی حسنی ندوی، ص: ۱۱۹
[4] العقیدۃ فی أہل البیت بین الإفراط والتفریط، ص: ۲۱۵ ۔
[5] العقیدۃ فی اہل البیت بین الإفراط والتفریط، ص: ۲۱۰
[6] فتح الباری: ۱/ ۱۷۰