کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 221
(( أُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِیْ أَہْلِ بَیْتِیْ۔)) [1]
’’میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تم کو اللہ کا واسطہ یاد دلاتا ہوں ۔‘‘
عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے کردار و عمل کی روشنی میں اہل بیت سے متعلق اپنی عقیدت و محبت کا اظہار ہمارے سامنے کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں :
۱۔ ازواج مطہرات علیہ السلام کی خبر گیری:
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ازواجِ مطہرات کے حالات معلوم کیا کرتے تھے اور انہیں عطیات سے نوازتے رہتے تھے، کوئی پھل یا میوہ کھاتے تو اس میں ازواج مطہرات علیہ السلام کا حصہ ضرور نکالتے اور سب سے آخر میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتے تاکہ اگر کمی ہو تو انہی کے حق میں ہو۔ [2]
ازواجِ مطہرات کی شان میں فاروقی اکرام واعزاز کی بابت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہمارے پاس ذبیحہ میں سے ہمارا حصہ بھیجتے تھے، حتیٰ کہ سر اور پائے میں سے بھی۔ [3]
۲۔ سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد:
جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ جناب عمر رضی اللہ عنہ خاندان نبوی کے افراد کو بہت عزت دیتے تھے اور انہیں اپنی اولاد حتیٰ کہ خاندان والوں پر ترجیح دیتے تھے، چنانچہ اس موضوع سے متعلق آپ کے چند واقعات یہاں مذکور ہیں :
سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مجھ سے ایک روز عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیٹے! کاش تم ہمارے پاس آیا کرتے اور مل لیا کرتے، ان کے کہنے کی بنا پر میں ایک روز وہاں گیا، اس وقت آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنہائی میں ان سے باتیں کررہے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما دروازے پر تھے، ان کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ یہ دیکھ کر میں واپس آگیا۔ پھر ایک دن عمر رضی اللہ عنہ کا سامنا ہوا تو انہوں نے فرمایا: بیٹے تم میرے پاس نہیں آئے؟ میں نے کہا: میں آیا تھا مگر آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تخلیہ میں تھے، میں نے دیکھا کہ ابن عمر واپس لوٹ گئے تو میں بھی لوٹ آیا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم عبداللہ بن عمر سے زیادہ اجازت پانے کے مستحق ہو، ہمارے دل ودماغ میں ایمان کی جو تخم ریزی ہوئی ہے وہ اللہ کا احسان ہے، پھر تمہارے گھرانے کا فیض ہے، یہ کہہ کر میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔ [4]
علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب ’’الفاروق‘‘ میں متعلقین جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ولحاظ کے سلسلہ میں
[1] صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر: ۲۴۰۸
[2] الزہد، إمام أحمد بن حنبل، ص: ۱۶۶۔ بروایت مالک، اس کی سند صحیح ہے۔
[3] الطبقات، ابن سعد: ۳/ ۳۰۳ یہ خبر سنداً صحیح ہے۔
[4] المرتضٰی، ابوالحسن علی حسنی ندوی، ص: ۱۱۸ بحوالہ الاصابۃ: ۱/ ۱۳۳