کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 220
ملکی خزانے میں دست درازی کرنے لگتا ہے تو عوام میں خیانت اور چوری عام ہونے لگتی ہے، بیت المال یا ملکی خزانے یہاں تک کہ دیگر ترقیاتی اداروں میں بد نظمی پیدا ہو جاتیہے۔ چھپ چھپ کر خیانت کرنے والا کھلے عام خیانت کرنے لگتا ہے، گویا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، جب کہ فطری عدل وانصاف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر انسان قناعت شعار ہو، دوسروں کے مال پر للچائی نگاہ نہ رکھتا ہو، عوام کے حقوق کی پوری رعایت کرتا ہو، تو لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، اس کے ساتھ رہنے کی خواہش کرتے ہیں ، خاص طور سے اگر مذکورہ اوصاف کسی حاکم میں ہوں تو عوام اس کے حق میں مہربان اور اطاعت گزار ہوتی ہے، اور اس کی نگاہوں میں اپنے سے زیادہ حاکم وقت معزز ہوتا ہے۔ [1]
آپ کی عائلی ومعاشرتی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد منصب خلافت کے باب میں نقوش فاروقی میں جو چیز سب سے اہم شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اپنی ذاتی اور عوامی زندگی میں خیر وبھلائی کا کامل نمونہ تھے، یہاں تک کہ آپ کی زندگی سے متاثر ہو کر علی بن ابی طالبؓ نے کہا: ’’تو پاک دامن رہا اس لیے تیری رعایا بھی پاک دامن رہی، اگر تو حکومت کا مال کھاتا تو رعایا بھی کھاتی۔‘‘ آپ جس بات کا دوسروں کو حکم دیتے تھے اس سلسلہ میں اپنے حکام وعمال کی نگرانی سے کہیں زیادہ نگرانی اپنی اور اپنے گھر والوں کی کرتے تھے، اور سب سے پہلے اسے اپنے اوپر نافذ کرتے تھے۔ چنانچہ لوگوں کے دلوں میں آپ کا رعب پیدا کرنے اور ہر خاص وعام کی طرف سے آپ کی تصدیق کرنے میں مذکورہ کردار کا زبردست اثر تھا۔ [2]
یہ ہیں خلیفہ راشد عمر بن خطاب، جو دین اسلام کی اعلیٰ ترین چوٹی پر فائز تھے۔ اسلام نے آپ کی تربیت کی تھی، ایمان باللہ نے آپ کے دل کو محبت الٰہی سے بھر دیا تھا وہ بڑا گہرا ایمان تھا، اس سے آئندہ نسلوں کے لیے ایمانی نمونہ تیار ہوا اور آج بھی اللہ پر کامل ایمان اور اسلامی اصولوں پر زندگی کی تربیت حاکم وقت کو تعجب خیز نمونہ عمل کے مقام پر فائز کرنے کا سبب بن سکتی ہے، ایسا حیران کن نمونہ جو آج سے قیامت تک کے لیے بطور یاد گار باقی رہے گا۔ [3]
اہل بیت کا احترام ومحبت
بلاشبہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک خاندان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت اونچا مقام ہے اور وہ بے حد عزت واحترام کے مستحق ہیں ، اہل سنت والجماعت خاندان نبوت کے شرعی حقوق کا پورا لحاظ رکھتے ہیں ، ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی طرف سے دفاع کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ’’غدیر خم‘‘ کے موقع پر زبان نبوی سے نکلی ہوئی اس وصیت پر مکمل عمل کرتے ہیں:
[1] الخلفاء الرشدون، ذہبی، ص: ۲۷۱
[2] القیادۃ والتغییر، ص: ۱۸۲
[3] فن الحکم، ص: ۷۴