کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 219
میں ہمیں کچھ کپڑا مل جائے،پھر اسے ہم بازار میں فروخت کریں اور کچھ کمالیں ۔ آپ نے فرمایا: (ٹھیک ہے، لیکن یہاں ) قاصد تو تمام مسلمانوں کا تھا اور خاص انہی کی ڈاک لے کر گیا تھا، لہٰذا وہ اسے ناپسند کریں گے۔ چنانچہ آپ نے وہ ہدیہ بیت المال میں جمع کرنے کا حکم دیا اور امّ کلثوم کو ان کی خرچ کی ہوئی رقم کا عوض دے دیا۔ [1] ۱۰: امّ سلیط زیادہ حق دار ہیں : …ثعلبہ بن ابی مالک سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں چادریں تقسیم کیں ، ایک بہت اچھی چادر بچ گئی، آپ کے پاس جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے کسی نے کہا: اے امیر المومنین! بہتر ہے کہ آپ اسے نواسیٔ رسول یعنی اپنی بیوی امّ کلثوم بنت علی کو دے دیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ام سلیط اس کی زیادہ حق دار ہیں ، وہ ان انصاری خواتین میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی اور ان کو یہ مرتبہ حاصل ہے کہ وہ غزوۂ احد کے موقع پر ہمارے لیے پانی کے مشکیزے پیش کرتی تھیں ۔ [2] ۱۱: تم اپنے باپ کو دھوکا دیتي ہو اور قرابت داروں کي خیر خواہ بنتي ہو: … سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کہیں سے زیادہ مال آیا، ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو اس کی خبر ملی تو کہا: اے امیر المومنین! اس مال میں آپ کے رشتہ داروں کا بھی حق ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مال سے رشتہ داروں کو بھی دینے کا حکم دیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اے میری بیٹی، میرے رشتہ داروں کا حق میرے مال میں ہے، اور یہ مال مسلمانوں کا ہے، تم اپنے باپ کو دھوکا دیتی ہو اور رشتہ داروں کی خیر خواہ بنتی ہو، جاؤ چلی جاؤ۔ [3] ۱۲: تم چاہتے ہو کہ ایک خائن حاکم کي شکل میں اللہ سے ملوں : …سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے داماد آئے، اور آپ سے بیت المال سے کچھ مال کا مطالبہ کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ڈانٹا اور کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ سے ملوں تو ایک خائن حاکم بن کر ملوں اور اس کے بعد آپ نے اپنی مخصوص رقم سے دس ہزار درہم ان کو دیے۔ [4] یہ ہیں فاروقی زندگی کے اعلیٰ کردار کی چند مثالیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ عوام ورعایا کے مال سے کس قدر بے نیاز تھے اور اپنے رشتہ داروں نیز گھر والوں کو اپنی حکومت ومنصب کے حوالے سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانے سے کس قدر سختی سے منع کرتے تھے۔ اللہ کا مال حکام وامراء ہی کی صوابدید پر قائم رہتا ہے۔ اور ایک بات فطری اصولوں میں سے ہے نیز مشاہدات وواقعات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں ، وہ یہ کہ جب حاکم وقت
[1] الخلفاء الراشدون، د/ عبدالوہاب نجار، ص: ۲۴۵ [2] البخاری: ۴۰۷۱۔ فتح الباری: ۷/ ۴۲۴، ۶/ ۹۳۔ الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۷۳ [3] الزہد، إمام أحمد بن حنبل، ص: ۱۷۔ فرائد الکلام، ص: ۱۳۹ [4] تاریخ الإسلام، ذہبی، ص: ۲۷۱