کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 217
مجھ سے کہا: کیا تمہیں کو معلوم ہے اس نے کیا کیا ہے؟ یہ عراق گیا اور وہاں کے لوگوں کو اس بات کا حوالہ دیا کہ میں امیر المومنین کا بیٹا ہوں ، ان لوگوں سے اس نے خرچ مانگا اور انہوں نے محض میری وجہ سے اسے برتن، چاندی، مختلف سامان، اور تلوار دی ہے۔ عاصم نے کہا: کیا میں نے ایسا نہیں کیا ہے؟ میں تو اپنے لوگوں کے پاس گیا تھا اور انہوں نے مجھے یہ سب کچھ بغیر کسی طلب کے دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے معیقیب اسے لے لو اور مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کروا دو۔ [1] یہ ہے اس مال کی چھان پھٹک کی مثال جسے انسان اپنے مقام ومنصب کی وجہ سے حاصل کرتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ ان کے بیٹے عاصم نے اس مال کو محض امیرالمومنین کا بیٹا ہونے کی وجہ سے پایا ہے تو آپ نے اس مال کو عاصم کے پاس چھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔ اس لیے کہ انہوں نے یہ مال بلا کسی محنت کے حاصل کیا تھا جس کی وجہ سے یہ مال شکوک وشبہات کے دائرے میں داخل ہوگیا تھا۔ [2] ۷: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کي بیوي عاتکہ اور کستوري : …سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بحرین سے کستوری اور عنبر آیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم میری تمنا ہے کہ بہترین وزن کرنے والی کوئی عورت اگر مل جاتی تو اس خوشبو کو تول دیتی اور میں اسے مسلمانوں میں تقسیم کردیتا۔ آپ کی بیوی عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل نے کہا: میں بہت اچھا وزن کرلیتی ہوں لاؤ میں وزن کردیتی ہوں ۔ آپ نے فرمایا: نہیں ۔ انہوں نے کہا: کیوں ؟ آپ نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم ہاتھ میں لگی ہوئی خوشبو کو سر اور گردن پر نہ لگا لو اور میں اس طرح دیگر مسلمانوں سے زیادہ حصہ پا جاؤں ۔ [3] یہ ہے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ورع وتقویٰ اور دینی امور میں سخت احتیاط کی روشن مثال کہ اپنی بیوی کو خوشبو تقسیم کرنے کی ذمہ داری محض اس لیے نہیں دی کہ کہیں ہاتھ میں لگی ہوئی خوشبو کو وہ گردن پر نہ پھیر لے اور مسلمانوں کا مال ناجائز طور سے اس کے تصرف میں آجائے۔ شبہ واحتمال کے باب میں ایسی غایت درجہ کی احتیاط اللہ کے ان نیکوکار بندوں ہی میں دیکھنے کو ملتی ہے جو بھلائیوں کی طرف سبقت کرنے والے اور حلال وحرام نیز حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں ۔ جب کہ وہ لوگ جو اپنی ذات کی حفاظت سے غافل رہتے ہیں ان کے یہاں ان باتوں کی قطعاً پروا نہیں ہوتی۔ [4] ۸: بیوي کو عطا کیے گئے ہدیہ کي مخالفت: …ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ
[1] عصر الخلافۃ الراشدۃ، العمری، ص: ۲۳۶۔ یہ اثر حسن ہے۔ [2] التاریخ الاسلامی: ۱۹/ ۴۰ [3] الزہد، امام أحمد بن حنبل، ص:۱۱۔ بحوالہ التاریخ الإسلامی: ۱۹/ ۳۰ [4] التاریخ الإسلامی: ۱۹/ ۳۰