کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 215
کو اچھی طرح پلاؤ، اے عبداللہ بن عمر اپنے اونٹ کی اصل قیمت لے لو اور منافع مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کروا دو۔ [1]
۲: جنگ جلولاء کے موقع پر مال فے خریدنے پر عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا محاسبہ: … عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ فارس کے معرکوں میں سے ایک معرکہ جو ’’جلولاء‘‘ میں پیش آیا تھا اس میں حاضر ہوا اور چالیس ہزار درہم میں مالِ غنیمت خریدا اور جب وہاں سے لوٹ کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے کہا: اگر میں جہنم میں ڈالا جاؤں اور تم سے کہا جائے کہ اس کے عذاب سے بچانے کے لیے فدیہ دو، تو کیا تم فدیہ دو گے؟ تمہارا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم کوئی بھی چیز جو آپ کے لیے باعث تکلیف ہو میں اس سے بچانے کے لیے سب کچھ فدیہ دینے کو تیار ہوں ۔ آپ نے فرمایا: گویا کہ میں لوگوں کو دیکھ رہا تھا جب وہ خرید و فروخت کررہے تھے اور کہہ رہے تھے: عبداللہ بن عمر صحابی رسول ہیں ، امیر المومنین کے بیٹے ہیں ، ان کے چہیتے ہیں ، اور تم حقیقت میں ایسے ہو بھی۔ پس تمہیں مہنگا دینے کے بجائے کم داموں میں دینا انہیں زیادہ محبوب رہا۔ میں تقسیم کرنے والا ذمہ دار ہوں اور ایک قریشی تاجر جتنا نفع پاتا ہے میں تم کو اس سے زیادہ دیتا ہوں ۔ تمہارے لیے ایک درہم پر ایک درہم (یعنی دوگنا) نفع ہے۔ ابن عمر کا کہنا ہے کہ پھر آپ نے تاجروں کو بلایا اور انہوں نے اس کو چار لاکھ درہم میں خرید لیا، عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے مجھے صرف اسّی ہزار (۸۰۰۰) درہم دئیے اور بقیہ دراہم سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دئیے تاکہ وہ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردیں ۔ [2]
۳: قرابت داري نفع خوري کا سبب نہیں بن سکتي: …اسلم سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے دونوں صاحبزادے یعنی عبداللہ اور عبید اللہ ایک لشکر کے ساتھ عراق کی مہم پر نکلے، جب وہ دونوں لوٹے تو بصرہ کے امیر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرتے ہوئے لوٹے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو خوش آمدید کہا اور استقبال کیا اور کہا: اگر میں کسی طرح سے تم دونوں کو کوئی فائدہ پہنچا سکا تو ضرور فائدہ پہنچاؤں گا۔ پھر کہنے لگے: ہاں ٹھیک ہے، یہاں میرے پاس صدقہ کی کچھ رقم ہے اور میں اسے امیر المومنین کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں ، میں اسے تم دونوں کو بطور قرض دے رہا ہوں تم اس سے عراق سے کچھ سامان خرید لو اور اسے لے جا کر مدینہ میں فروخت کردینا، پھر قرض کی اصل رقم امیر المومنین کو دے دینا اور نفع تمہارا ہوجائے گا۔ ان دونوں نے ایسا ہی کیا اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھ دیا کہ ان دونوں سے مرسلہ رقم لے لیں ۔ جب وہ دونوں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو آپ نے دریافت کیا کہ کیا جس طرح تم دونوں کو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے قرض دیا ہے اسی طرح مجاہدین کے پورے لشکر کو دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رقم اور
[1] مناقب عمر، ابن الجوزی: ۱۵۷، ۱۵۸
[2] تاریخ الإسلام، عہد الخلفاء الراشدین/ ذہبی، ص: ۲۷۰، ۲۷۱