کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 214
کے بہت پابند تھے۔ [1]چنانچہ جب آپ نے آیت کریمہ سنی تو آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور جس آدمی نے آپ کو آپ کے اخلاق کریمہ میں بخیلی اور دین داری میں ناانصافی کی تہمت لگا کر آپ کی شان میں گستاخی کی تھی، آپ نے اسے معاف کردیا۔
عائلی و معاشرتی زندگی
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حاکم جب تک اللہ کے حقوق ادا کرتا ہے رعایا اس کے حقوق ادا کرتی ہے اور جب حاکم اللہ کے حقوق پامال کرنا شروع کردیتا ہے تو رعایا اس کے حقوق پامال کرنے لگتی ہے۔ [2] یہی وجہ تھی کہ آپ اپنا اور اپنے گھر والوں کا سختی سے محاسبہ کرتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ نگاہیں آپ کی طرف دیکھ رہی ہیں اور اس میں کوئی فائدہ نہیں کہ خود اپنی ذات پر سختی کریں اور گھر والے عیش وعشرت کی زندگی گزاریں اور پھر بروز قیامت ان کے بارے میں باز پرس ہو، ساتھ ہی دنیا میں زبان خلق انہیں معاف نہیں کرسکتی، چنانچہ آپ جب کوئی امتناعی حکم جاری کرتے تو سب سے پہلے اپنے گھر والوں کے پاس آتے اور فرماتے: میں نے لوگوں کو فلاں فلاں کام سے روک دیا ہے، لوگ تم پر اسی طرح نگاہ رکھتے ہیں جس طرح گوشت خور پرندہ گوشت پر۔ پس اگر تم نے حکم کی خلاف ورزی کی تو وہ بھی کریں گے اور اگر تم دور رہے تو وہ بھی دور رہیں گے۔ اللہ کی قسم! اگر میرے پاس کوئی فرد لایا گیا جو میرا قریبی ہے اور میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، تو میں اس کو دہری سزا دوں گا۔ لہٰذا جو چاہے خلاف ورزی کرے اور جو چاہے اس سے باز رہے۔ [3]
آپ اپنی بیویوں ، بچوں اور رشتے داروں کے رہن سہن اور اخراجات پر کڑی نگاہ اور سخت نگرانی رکھتے تھے۔ اس کی چند مثالیں یہاں ذکر کی جا رہی ہیں :
۱: رفاہ عامہ کي ملکیت: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر والوں کو رفاہِ عامہ کے لیے خاص کی گئی ملکیتوں سے استفادہ کرنے سے منع کردیا تھا، محض اس خوف سے کہ کہیں اپنے گھرانے کی طرف داری نہ ہوجائے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے ایک اونٹ خرید کر رفاہی چراگاہ میں چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ جب وہ موٹا ہوگیا تو میں اس کو لے کر بازار گیا، عمر رضی اللہ عنہ بازار آئے اور موٹے اونٹ کو دیکھا تو پوچھا: یہ کس کا اونٹ ہے؟ آپ کو بتایا گیا کہ عبداللہ بن عمر کا ہے۔ آپ کہنے لگے: اے عبداللہ بن عمر! کیا خوب، کیا خوب …، امیر المومنین کے بیٹے! یہ اونٹ کیسا ہے؟ عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے بتایا کہ اس اونٹ کو میں نے خریدا تھا اور پھر رفاہی چراگاہ میں چھوڑ دیا تھا، میں بھی وہی چاہتا تھا جو تمام مسلمان چاہتے ہیں ۔ (یعنی اونٹ فربہ اور تروتازہ ہوجائے) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ کہتے رہے ہوں گے امیر المومنین کے بیٹے کے اونٹ کو خوب چراؤ، امیر المومنین کے بیٹے کے اونٹ
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۷۲۸۶۔ ۴۶۴۲
[2] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، د/ محمد قلعجی، ص: ۱۴۶
[3] محض الصواب: ۳/ ۸۹۳