کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 213
اے امیر المومنین! اور بھی بچے ہیں جنہیں میں دیکھ رہا ہوں ابھی وہ لوگ مجھ سے ان کھجوروں کو چھین لیں گے۔ آپ نے فرمایا: نہیں ، ہرگز نہیں ۔ چلو میرے ساتھ چلو۔ پھر آپ مجھے لے کر میرے گھر والوں کے پاس آئے۔ [1] سیّدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کندھے پر پانی کا ایک مشکیزہ اٹھائے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ کے لیے یہ مناسب نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: جب وفود اطاعت وفرماں برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے پاس آئے تو میرے دل میں اپنی بڑائی کا احساس ہوا، اس لیے میں نے اس بڑائی کو توڑنا ضروری سمجھا۔ [2] سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ باہر گیا، آپ ایک باغ میں داخل ہوئے، میرے اور آپ کے درمیان ایک دیوار حائل تھی۔ آپ باغ کے اندر تھے، میں نے اس وقت عمر رضی اللہ عنہ کو خود سے خطاب کرتے ہوئے سنا: ’’اے عمر بن خطاب! تو امیر المومنین ہے، کیا خوب، تو خطاب کا معمولی بیٹا ہے، تو اللہ سے ڈر، ورنہ وہ تجھے عذاب دے گا۔‘‘ [3] ۵: بردباری: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عیینہ بن حصن بن حذیفہ آئے اور اپنے بھتیجے حربن قیس [4] کے مہمان بنے۔ حر بن قیس عمر رضی اللہ عنہ کے قریبی لوگوں میں سے تھے اور جیسا کہ معلوم ہے کہ آپ کی مجلس شوریٰ کے تمام افراد حفاظ قرآن تھے۔ خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ بہرحال عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا: اے میرے بھتیجے! کیا امیر المومنین تک تمہاری رسائی ہے؟ یا یوں کہا کہ امیر المومنین تک تمہاری رسائی ہے اس لیے میری ملاقات کے لیے اجازت مانگ لو۔ حر بن قیس نے کہا: میں ابھی اجازت لیتا ہوں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ حر بن قیس نے عیینہ کے لیے اجازت مانگی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی۔ جب عیینہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو کہا: اے ابن خطاب! ذرا میری بات پر دھیان دیجیے۔ اللہ کی قسم آپ مجھے زیادہ وظیفہ نہیں دیتے اور عدل سے کام نہیں لیتے۔ عمر رضی اللہ عنہ سخت غصے ہوئے، یہاں تک کہ اسے مارنا چاہا، لیکن حر بن قیس بول اٹھے کہ امیر المومنین! یہ جاہل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا ہے: ﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴾ (الاعراف:۱۹۹) ’’آپ درگزر کو اختیار کریں ، نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہوجائیں ۔‘‘ اللہ کی قسم ! جب حر بن قیس نے آیت کی تلاوت کی تو عمر بن خطاب فوراً رک گئے۔ یقینا وہ اللہ کی کتاب
[1] صلاح الأمۃ فی علو الہمۃ، سید العفانی: ۵/ ۴۲۵ [2] مدارج السالکین: ۲/ ۳۳۰ [3] موطأ مالک: ۲/ ۹۹۲۔ اس کی سند صحیح ہے۔ [4] آپ صحابی ہیں ، بنو فزارہ کے وفد کے ساتھ اسلام لائے، آپ کی نسبت اس طرح ہے: حر بن قیس فزاری۔