کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 212
۳: ورع:
آپ کے ورع کی ایک مثال وہ واقعہ ہے جسے ابوزید عمر بن شبہ نے معدان بن ابو طلحہ یعمری کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کپڑے اور کھانا لے کر آئے اور آپ کے حکم سے اسے لوگوں میں تقسیم کردیا گیا، پھر آپ نے دعا کی: اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں نے خود لوگوں کو نہیں کھلایا ، اور نہ خود کو ان پر ترجیح دی، صرف میں ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوا ہوں ، پھر بھی مجھے ڈر ہے کہ کہیں تو اس کھانے کو عمر کے پیٹ میں آگ کا سبب نہ بنا دے۔ معدان کا بیان ہے کہ اس کے بعد آپ نے اپنی مخصوص رقم سے ایک بڑا پیالہ بنوایا پھر اسے عام لوگوں کی پلیٹوں کے درمیان رکھنے لگے۔
امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ورع کی یہ نادر مثال دیکھئے کہ آپ نے بلاقصد وارادہ اس دودھ کو پیا تھا، لیکن عذابِ الٰہی کا ایسا خوف کہ جب تک بعض بزرگ صحابہ سے جو مسلمانوں کی طرف سے اس ذمہ داری پر مامور تھے اس کے بارے میں اجازت نہ لے لی آپ کے دل کو اطمینان نہ ہوا … یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ذکر آخرت، وہاں کے حساب وکتاب، نعمتوں کے حصول اور بدبختی سے بچنے کا خوف آپ کے رگ وپے میں سرایت کرچکا تھا اور اسی غم میں آپ ڈوبے رہتے تھے اور یہی خوف وغم آپ کی زندگی میں اعلیٰ سلوک وکردار کا اصل محرک تھا۔ [1]
۴: تواضع:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے راستے میں عباس رضی اللہ عنہ کے پرنالے کا پانی گرتا تھا، ایک مرتبہ جمعہ کے دن عمر رضی اللہ عنہ کپڑے پہن کر گھر سے نکلے، اتفاق سے اس دن عباس رضی اللہ عنہ کے گھر دو چوزے ذبح کیے گئے تھے۔جب عمر رضی اللہ عنہ پرنالے کے نیچے پہنچے تو خون آلود پانی آپ کے اوپر گرنے لگا۔ آپ نے پرنالے کو اکھاڑنے کا حکم دے دیا اور واپس ہوگئے۔ ان کپڑوں کو اتار کر دوسرے کپڑے زیب تن کیے، پھر آئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ عباس رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کی قسم، وہ پرنالا اسی جگہ لگا تھا، جہاں اسے اللہ کے رسول نے لگایا تھا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: میں آپ سے زور دے کر کہتا ہوں کہ میری پیٹھ پر چڑھ کر پرنالے کو اسی جگہ لگا دیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا، چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ نے ویسا ہی کیا۔ [2]
سنان بن سلمہ ہذلی سے روایت ہے کہ میں بچوں کے ساتھ نکلا، ہم سب ’’بلح‘‘ (سبز کھجور) چن رہے تھے، اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے، ان کے ہاتھ میں درّہ تھا، جب بچوں نے آپ کو دیکھا تو باغ میں منتشر ہوگئے لیکن میں کھڑا رہا، میرے تہبند میں کچھ کھجوریں تھیں جن کو میں نے اکٹھا کیا تھا۔ میں نے کہا: اے امیر المومنین! یہ کھجوریں ہوا سے زمین پر گری پڑی تھیں ۔ آپ نے میرے تہبند کی کھجوروں کو دیکھا، لیکن مجھے نہیں مارا، میں نے کہا:
[1] التاریخ الإسلامی: ۱۹/ ۲۸
[2] صفۃ الصفوۃ: ۱/ ۲۸۵