کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 211
۲: زہد:
قرآن کے سایہ میں زندگی گزار کر، نبی صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرکے اور حیات فانی کا جائزہ لے کر آپ نے بخوبی سمجھ لیا تھا کہ دنیا ابتلاء وآزمائش کا گھر اور آخرت کی کھیتی ہے۔ چنانچہ آپ نے دنیا داری، اس کے حسن وزیبائش اور چمک دمک سے خود کو دور رکھا تھا۔ ظاہر وباطن ہر اعتبار سے اپنے ربّ کے سامنے خود کو جھکا دیا تھا اور ایسے حقائق کی جڑیں آپ کے دل میں پیوست ہوچکی تھیں جو اس دنیا سے زہد وبے نیازی پر آپ کی معاون ومددگار ہوتی تھیں ۔ وہ حقائق یہ ہیں :
٭ اس بات پر کامل یقین تھا کہ ہم اس دنیا میں ایک اجنبی یا مسافر کے مشابہ ہیں ، جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے:
(( کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ۔)) [1]
’’تم دنیا میں اس طرح زندگی گزارو گویا کہ اجنبی ہو یا مسافر۔‘‘
٭ اللہ ربّ العزت کے نزدیک اس دنیا کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے۔ بس اتنی ہی قابل قدر ہے کہ جتنے میں اللہ کی اطاعت وفرماں برداری کرلی جائے۔ فرمانِ نبوی ہے:
(( لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَا سَقَی کَافِرًا مِنْہَا شُرْبَۃَ مَائٍ۔))[2]
’’اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی قدر وقیمت مکھی کے پر کے بھی برابر ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ بھی پانی نہ پلاتا۔‘‘
ابوالاشہب [3] کا بیان ہے کہ ایک گھور (کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ) کے پاس سے عمر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا۔ آپ وہاں تھوڑی دیر ٹھہر گئے، آپ کے ساتھیوں کو یہ عمل ناگوار گزرا، آپ نے ان سے فرمایا: یہ تمہاری دنیا ہے جس پر تم فدا ہو اور اس پر مرمٹ رہے ہو۔ [4]
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دنیا کے بارے میں غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر دنیا کو ترجیح دوں تو آخرت کا نقصان اٹھاتا ہوں اور اگر آخرت چاہتا ہوں تو دنیا کا نقصان اٹھاتا ہوں ۔ لہٰذا جب معاملہ اس طرح ہے تو فانی دنیا ہی کا نقصان اٹھانا بہتر ہے۔ [5]
ایک مرتبہ آپ لوگوں سے خطاب فرمارہے تھے حالانکہ آپ خلیفہ تھے اور آپ کی تہبند میں بارہ پیوند لگے تھے۔[6]
[1] سنن الترمذی، کتاب الزہد، حدیث نمبر: ۲۳۳۳۔ یہ حدیث صحیح ہے۔
[2] سنن الترمذی، کتاب الزہد، حدیث نمبر: ۲۳۲۰
[3] آپ کا نام جعفر بن حیان سعدی ہے۔
[4] الزہد/ للامام أحمد، ص: ۱۱۸
[5] الحلیۃ: ۱/ ۵۰۔ یہ روایت انقطاع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مناقب عمر، ابن الجوزی، ص: ۱۳۷
[6] الزہد، لإمام أحمد، ص: ۱۲۴۔ یہ روایت متعدد طرق سے منقول ہے۔