کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 210
(۲) سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ، عائلی ومعاشرتی زندگی اور اہل بیت کا احترام اوصافِ حمیدہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اوصاف کو صیقل کرنے میں ایمان باللہ اور فکر آخرت کی اصل تاثیر تھی اور ایمان ہی نے آپ کی شخصیت کو متوازی، با رعب اور پرکشش بنا دیا تھا۔ اسی ایمانی قوت کا نتیجہ تھا کہ آپ کی قوت آپ کی عدالت پر، سطوت آپ کی رحمت پر اور مالداری آپ کی تواضع پر غالب نہ آسکی، اور آپ اللہ کی تائید ونصرت کے مستحق ہوئے، آپ نے کلمہ توحید کی تمام شرطوں یعنی علم، یقین، قبول ، انقیاد، اخلاص اور محبت کو عملاً پورا کیا۔ آپ کو ایمان اور کلمہ توحید کی حقیقی معرفت حاصل تھی۔ چنانچہ آپ کے پختہ ایمان کے اثرات آپ کی زندگی میں موقع بموقع سامنے آتے رہے، اس کی چند اہم مثالیں یہاں پیش کی جا رہی ہیں : ۱: خشیت الٰہی اور محاسبۂ نفس: عمر فاروق رضی اللہ عنہ اکثر فرماتے تھے: ’’جہنم کو کثرت سے یاد کرو، اس کی گرمی سخت ہے، اس کی گہرائی بہت طویل ہے، اس کا ٹھکانا بہت سخت ہے۔‘‘ [1] محاسبۂ نفس کے بارے میں کہا کرتے تھے: ’’اپنے نفس کا خود محاسبہ کیا کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اور اپنی قدر وقیمت کو تول لو اس سے پہلے کہ تم تولے جاؤ۔ اور بڑی پیشی (یعنی روز جزا) کے لیے تیار رہو: ﴿ يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنكُمْ خَافِيَةٌ ﴾ (الحاقۃ:۱۸) [2] ’’اس دن تم سب پیش کیے جاؤ گے اور تمہارا کوئی بھید پوشیدہ نہ رہے گا۔‘‘ خشیت الٰہی اور محاسبہ نفس کا یہ عالم تھا کہ آپ فرماتے: ’’اگر دریائے فرات کے ساحل پر بکری کا ایک بچہ بھی مرگیا تو مجھے ڈر ہے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ عمر سے محاسبہ کرے گا۔ [3] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کبھی کبھار آگ جلاتے اور اس میں اپنا ہاتھ ڈالتے، پھر خود کو مخاطب کرکے کہتے: اے خطاب کے بیٹے! کیا تجھے اس پر صبر کرنے کی طاقت ہے۔ [4]
[1] فرائد الکلام للخلفاء الکرام، ص: ۱۵۵ [2] مختصر منہاج القاصدین، ص: ۳۷۲۔ فرائد الکلام، ص: ۱۴۳ [3] مناقب عمر، ص: ۱۶۰، ۱۶۱ [4] مناقب عمر، ص: ۶۲