کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 208
بیت المال سے کچھ نہ لیا، یہاں تک کہ آپ کو کافی تنگی کا سامنا کرنا پڑا، رعایا کے کاموں میں مشغول ہونے کی وجہ سے آپ کی تجارت کی آمدنی بھی کم ہوگئی۔ اس وقت آپ نے صحابہ کرام کو بلوایا اور ان سے اس سلسلہ میں مشورہ لیا۔ آپ نے کہا: میں نے خود کو اس منصب خلافت کے لیے مشغول کر دیا ہے تو اس (بیت المال) سے مجھے کتنا لینا درست ہے؟ سیّدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: کھائیے اور کھلائیے۔ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ [1] نے بھی یہی رائے پیش کی۔ پھر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کیا کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا: دوپہر اور شام کا کھانا۔ چنانچہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی پر عمل کیا اور بیت المال سے اپنا حق لینے کے بارے میں کہا: میں نے اللہ کے مال کی حفاظت میں خود کو یتیم کے نگران کے قائم مقام بنا لیا ہے۔ اگر میں اس سے بے نیاز ہوگیا تو لینا چھوڑ دوں گا اور اگر اس کا ضرورت مند ہوا تو اس میں سے معروف طریقہ سے کھاؤں گا۔ [2] ہجری تاریخ کا آغاز: تہذیب وتمدن کی ترقی کے مختلف میدانوں میں ہجری تاریخ کے آغاز کو ایک اہم مقام دیا جاتا رہا ہے۔ ہجری تاریخ کے موجد سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے، ہجری تاریخ کی شروعات کے بارے میں متعدد روایات وارد ہیں : میمون بن مہران کا بیان ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ایک دستاویز پیش کی گئی جسے شعبان میں آپ کے پاس آنا چاہیے تھا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا یہ وہ شعبان ہے جو گزر گیا، یا آئندہ شعبان ہے، یا جس شعبان کے مہینے سے ہم گزر رہے ہیں وہ مراد ہے؟ پھر آپ نے صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع کیا اور ان سے کہا: لوگوں کے لیے کوئی تاریخ متعین کرو جو سب کو معلوم رہے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ روم والوں کی تاریخ کا اعتبار کیا جائے، اس پر یہ کہا گیا کہ وہ بہت لمبا سال ہوتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ اپنی تاریخ ذوالقرنین کی پیدائش سے جوڑتے ہیں ۔ کسی نے مشورہ دیا کہ اہل فارس کی تاریخ کا اعتبار کرلیا جائے۔ اس پر یہ کہا گیا کہ وہاں کا ہر نیا بادشاہ اپنے پہلے حکمران کے تمام احکامات وغیرہ کو کالعدم قرار دے دیتا ہے پھر وہ اس بات پر متفق ہوئے کہ دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتنے دنوں تک مدینہ میں رہے۔ چنانچہ انہوں نے حساب لگایا کہ اللہ کے رسول مدینہ میں دس سال رہے تو پھر آپ کی ہجرت کا اعتبار کرتے ہوئے اسی کو اسلامی تاریخ کا نقطہ آغاز بنا لیا گیا۔ [3] عثمان بن عبید اللہ [4]سے روایت ہے کہ میں نے سعید بن مسیب کو کہتے ہوئے سنا: سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور کہا: کب سے ہم اپنی اسلامی تاریخ مقرر کریں ؟ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ
[1] آپ سعید بن زید العدوی صحابی ہیں ، عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں ۔ [2] الخلافۃ الراشدۃ، د/ یحیٰی الیحیٰی، ص: ۲۷۰ اس کی سند صحیح ہے۔ [3] محض الصواب: ۱/ ۳۱۶۔ ابن الجوزی، ص: ۶۹ [4] آپ عبید اللہ بن ابی رافع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے، عبید اللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ۔