کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 207
ہوا اور اس واقعہ کو بہترین اشعار میں بیان کیا، جسے تاریخ برابر دہراتی اور نقل کرتی ہے۔
اس واقعہ میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ شریعت کے مبدأ مساوات کی حفاظت کے کتنے حریص تھے۔ یقینا اسلام نے حاکم اور رعایا کے درمیان مساوات قائم کی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ مساوات کی مثالیں عملی شکل میں زندہ جاوید رہیں نہ کہ زبان، تحریر اور اشعار تک اس کا نعرہ محدود رہے کہ جسے صرف زبانیں گنگناتی رہیں ۔ [1]
اہل کتاب (یہودی و عیسائی) عورتوں سے شادی کے بارے میں سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی رائے:
جب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی عورت سے شادی کی ہے تو ان کو خط لکھا: ’’اس کا راستہ صاف کردو (طلاق دے دو۔)‘‘ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواباً تحریر کیا: ’’کیا آپ کے خیال میں وہ حرام ہے کہ میں اسے طلاق دے دوں ؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’میرا یہ خیال نہیں ہے کہ وہ حرام ہے بلکہ مجھے خوف ہے کہ تم ان میں سے فاحشہ وبدکار عورتوں سے شادی کرنے کے عادی نہ ہوجاؤ۔‘‘ اور دوسری روایت میں ہے: ’’مجھے ڈر ہے کہ مسلمان عورتوں کو چھوڑ دو اور بدکار عورتوں سے شادی کرنے لگو۔‘‘ [2]
ابو زہرہ کہتے ہیں کہ اس مقام پر ہمارے لیے یہ اصول بنانا ضروری ہے کہ مسلمان عورت میں ہر اعتبار سے پوری الفت ومحبت کے اسباب ہونے کی وجہ سے کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ انہیں چھوڑ کر غیر مسلم عورتوں سے شادی کرے۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کتابیہ عورتوں سے شادی کرنے سے منع کرتے تھے، اس لیے کہ اس کے پیچھے سیاسی تعلقات میں مضبوطی جیسے اہم مقاصد پوشیدہ ہوں تاکہ دلوں میں آپسی الفت ومحبت کا خوشگوار ماحول پیدا ہو۔ [3]
خلیفہ کے اخراجات، ہجری تاریخ کا آغاز اور ’’امیر المومنین‘‘ کا لقب:
خلافت ایک شرعی اور نیکی کا کام ہے جس سے اللہ کی رضامندی مقصود ہوتی ہے۔ جو اس منصب پر فائز ہوتا ہے اور اچھے ڈھنگ سے اسے چلاتا ہے، اس کے لیے ثواب کی امید کرتا ہے کہ اللہ کے پاس اسے اس کا بہتر بدلہ ملے گا، کیونکہ وہ احسان کرنے والوں کو ان کے احسان کا اور برائی کرنے والوں کو ان کی برائی کا بدلہ دیتا ہے۔ [4]
مناصب وذمہ داریاں اٹھانے کے عوض تنخواہ لینا شرعاً جائز ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو گورنر بنایا ان کو تنخواہیں دیں ۔ [5]
سیّدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جب عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ بنائے گئے تو کافی دنوں تک آپ نے
[1] فن الحکم فی الإسلام، ص: ۴۷۷، ۴۷۸
[2] تفسیر ابن کثیر: ۱/ ۲۶۵ اس کی سند صحیح ہے۔
[3] الأحوال الشخصیۃ، أبوزہرۃ، ص: ۱۰۴
[4] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۲۱۵
[5] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۲۱۶