کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 205
کہا: عمرو بن عاص کے سر پر مارو۔ اس نے کہا: اے امیر المومنین! ان کے لڑکے نے مجھے مارا تھا اور میں نے اس سے بدلہ لے لیا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا: تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے، حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا؟ عمرو بن عاص نے فرمایا: اے امیر المومنین! نہ میں نے اس واقعہ کو جانا اور نہ وہ (مصری) میرے پاس آیا۔ [1]
خلفائے راشدین کی حکومت عدل کی بنیادوں پر قائم رہی، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کیا ہی خوب بات کہی ہے :
’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل پسند حکومت کی مدد کرتا ہے اگرچہ وہ کافر ہو اور ظالم حکومت کی مدد نہیں کرتا اگرچہ وہ مسلم ہو۔ عدل ہی سے افراد کی اصلاح ہوتی ہے اور اموال میں برکت ہوتی ہے۔‘‘ [2]
عتبہ بن فرقد جب آذربائیجان گئے تو انہیں ضیافت میں حبیص (ایک قسم کی مٹھائی) پیش کی گئی، جب آپ نے اسے کھایا تو بہترین میٹھا پایا اور کہا: اگر اسی طرح امیر المومنین کے لیے بنایا جاتا تو بہتر ہوتا۔
چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دو بڑی ٹوکری بھر کر میٹھی چیز تیار کی، پھر اسے دو آدمیوں کے ساتھ اونٹ پر لاد کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا گیا، جب وہ دونوں اسے لے کر آپ کے پاس آئے اور کھولا تو آپ نے پوچھا: یہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے بتایا کہ میٹھی چیزہے، پھر آپ نے اسے چکھا، اور اسے میٹھا پایا۔ آپ نے پوچھا: کیا سارے مسلمان اپنے گھر میں اسی سے شکم سیر ہوتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں ۔ آپ نے فرمایا: جب ایسی بات ہے تو ان دونوں ٹوکریوں کو واپس لے جاؤ۔ پھر آپ نے عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا:
’’حمد وصلاۃ کے بعد! یہ نہ تیرے باپ کی کوشش سے ہے نہ تیری ماں کی کوشش سے، تم اپنے گھر میں جس چیز سے شکم سیر ہوتے ہو اسی سے تمام مسلمانوں کو شکم سیر کرو۔‘‘ [3]
عدل ومساوات کی تاریخ میں ایک اہم ترین مثال جبلہ بن ایہم کے ساتھ عمر بن خطاب کا وہ واقعہ بھی ہے جسے مؤرخین حضرات مساوات کی تنفیذ میں عدم مروت کے باب میں ذکر کرتے ہیں ۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے:
جبلہ، ہرقل کی جانب سے بنوغسان کا آخری حکمران تھا اور غسانی لوگ رومی سلطنت کی ماتحتی میں شام میں رہتے تھے اور شاہ روم غسانیوں کو ہمیشہ جزیرہ عرب کے باشندوں خاص طور پر مسلمانوں سے جنگ کرنے پر ابھارتا رہتا تھا۔ لیکن جب اسلامی فتوحات کی سرحدیں وسیع ہوگئیں اور رومیوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں پے درپے ہزیمتیں اٹھائیں تو شام میں بسنے والے عرب قبیلوں نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنا شروع کردیا، غسانی حکمران نے بھی اسلام قبول کر لیا، نیز اس کے ساتھ اس کے دوسرے ساتھی بھی اسلام لے آئے، پھر اس
[1] وسطیۃ أہل السنۃ بین الفرق، محمد باکریم، ص: ۱۷۰
[2] السیاسۃ الشرعیۃ، ص:۱۰
[3] مناقب أمیر المومنین، ابن الجوزی، ص: ۱۴۷