کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 204
قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ (المائدۃ:۸) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر خوب قائم رہنے والے، انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں ہرگز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح با خبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اپنے عدل وانصاف کا نمونہ تھے جس نے دلوں کو فتح کرلیا اور عقلیں دنگ رہ گئیں ، آپ کی نگاہ میں عدل وانصاف اسلام کی ایک عملی دعوت تھی جس سے لوگوں کے دلوں کو ایمان کے لیے وسیع کیا جا سکتا ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل پر چلتے رہے، آپ کی سیاست اس عدل پر قائم تھی جس سے تمام انسان مستفید ہورہے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ [1] نے سعید بن مسیب کی سند سے روایت کیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مسلمان اور یہودی جھگڑا لے کر آئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ یہودی حق پر ہے لہٰذا آپ نے اس کے حق میں فیصلہ کردیا، تو یہودی نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے حق کے ساتھ فیصلہ کیا۔ [2] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ عدل و مساوات کے اصول کو صرف مدینہ ہی میں نہیں نافذ کرنا چاہتے تھے بلکہ تمام ریاستوں میں اپنے تمام گورنروں کو اسی بات کی تعلیم دینا چاہتے تھے یہاں تک کہ کھانے پینے کے بارے میں بھی۔ [3] مصر کا ایک باشندہ آپ کے پاس عمرو بن عاص کے بیٹے کی شکایت لے کر آیا … عمرو بن عاص اس وقت مصر کے گورنر تھے … اس نے کہا: اے امیر المومنین! میں ظلم سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: تو نے اچھی پناہ گاہ ڈھونڈی۔ اس نے کہا: میں نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے دوڑ میں مقابلہ کیا اور میں اس سے آگے نکل گیا۔ اس پر وہ مجھے کوڑے سے مارنے لگا اور کہا میں معزز فرد کا بیٹا ہوں ۔ (یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھا اور انہیں اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دیا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مصری کہاں ہے؟ کوڑا لو اور مارو۔ وہ اسے مارنے لگا اور عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: ’’معزز فرد کے بیٹے کو مار۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس نے مارا، اللہ کی قسم اس نے اس کو خوب مارا اور ہماری تمنا تھی کہ اسے مارا جائے، وہ اسے مسلسل کوڑے مارتا رہا یہاں تک کہ ہم نے تمنا کی کہ اب نہ مارا جائے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے مصری سے
[1] الوسیط فی القرآن الکریم، الصلابی، ص:۹۶۔ [2] المؤطا، کتاب الأقضیۃ، باب الترغیب فی القضاء بالحق، حدیث نمبر: ۲ [3] نظام الحکم فی الشریعۃ والتاریخ الإسلامی: ۱/ ۸۷ ۱۔