کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 203
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ﴾ (آل عمران: ۱۵۹) ’’پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے آپ ان کے لیے نرم ہو گئے ہیں اور اگر آپ بدخلق، سخت دل ہوتے تو یقینا وہ آپ کے گرد سے منتشر ہو جاتے، سو ان سے در گزر کیجیے اور ان کے لیے بخشش کی دعا کیجیے اور کام میں ان سے مشورہ کیجیے، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسا کریں ، بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی حکومت کی اساس شورائیت ہی پر رکھی تھی۔ مسلمانوں سے صرف نظر کرکے خود کو کسی معاملے میں ترجیح نہ دیتے تھے اور نہ کسی معاملے میں ان پر اپنا کوئی حکم مسلط کرتے تھے۔ جب کوئی نیا معاملہ پیش آتاتو اس کے بارے میں اس وقت تک کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں لیتے تھے جب تک کہ مسلمانوں کو جمع کر کے ان سے صلاح ومشورہ نہ لے لیتے۔ آپ کے اقوال زرّیں میں سے ہے: ’’جس کام کو بغیر مشورہ کے عمل میں لایا گیا اس میں بھلائی نہیں ہے۔‘‘ [1] اور آپ کا قول ہے: ’’تنہا رائے کچے دھاگے کی طرح ہے اور دو رائے دو پختہ دھاگوں کے مثل ہیں ، جب کہ تین آدمیوں کا مشورہ بٹی ہوئی رسی کے مثل ہے جو ٹوٹتی نہیں ہے۔‘‘ [2] نیز آپ نے فرمایا ہے: ’’اپنے معاملات میں اس آدمی سے مشورہ لو جو اللہ سے ڈرتا ہو۔‘‘ [3] (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، ص: ۱۶۸، از ڈاکٹر محمد الصلابی) عدل ومساوات: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ
[1] الخلفاء الراشدون، النجار، ص: ۲۴۶ [2] سراج الملوک، طرطوشی، ص: ۱۳۲ [3] الإدارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الإسلامیۃ، سلیمان آل کمال: ۱/ ۲۷۳