کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 202
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ رَأَیْتُ قَدَحًا أُتِیْتُ بِہٖ فِیْہِ لَبَنٌ فَشَرِبْتُ مِنْہُ حَتّٰی إِنِّیْ لَأَرَی الرِّیَّ یََجْرِیْ فِیْ أَظْفَارِیْ ثُمَّ أَعْطَیْتُ فَضْلِیْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔))
’’میں سویا ہوا تھا، میں نے ایک پیالہ دیکھا وہ مجھے دیا گیا جس میں دودھ بھرا تھا، میں نے اس سے پیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی تراوٹ اپنے ناخنوں کے نیچے محسوس کی، پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن خطاب کو دے دیا۔‘‘
صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟
آپ نے فرمایا: ’’العلم‘‘ یعنی دودھ سے مراد علم ہے۔ [1]
یہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت کی دلیل ہے اور اس حدیث میں علم سے مراد کتاب اللہ اور سنت رسول پر مبنی عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، ص: ۱۵۴، از ڈاکٹر محمد الصلابی)
خلافت فاروقی ( رضی اللہ عنہ ) پر اجماع صحابہ:
مستند ومعتبر علماء کی جماعت نے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی صحت اور استحقاق پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے، جن میں بعض یہ ہیں :
٭ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی نے اپنی سند کے حوالے سے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت گیا جب آپ کو خنجر مارا گیا تھا، میں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ کو جنت کی خوشخبری ہے، آپ اس وقت اسلام لائے جب لوگوں نے کفر کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر اس وقت جہاد کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے رُسوا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس حال میں ہوئی کہ وہ آپ سے خوش تھے، آپ کی مدت خلافت کے بارے میں کبھی دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہیں کیا اور شہادت کا درجہ پا کر شہید کیے گئے۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دوبارہ کہو۔ میں نے اپنی بات دہرائی، تو آپ نے فرمایا: قسم ہے اس اللہ کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، اگر زمین کا تمام سونا اور چاندی مل جائے تاکہ آخرت کی ہولناکی سے نجات پاجاؤں تو سب کچھ فدیہ دے دوں ( کس کو خبر ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟)‘‘ [2]
شورائیت:
اسلامی حکومت وسلطنت کے بنیادی اصولوں میں یہ چیز داخل ہے کہ رہنمایانِ ملک، حکام مسلمانوں سے مشورہ لیں ، ان کی رائے ورضا مندی کو تسلیم کریں اور نظام حکومت کو شورائیت کی بنیادوں پر قائم کیا جائے۔
[1] صحیح مسلم: ۲۳۹۱۔
[2] الاعتقاد، البیہقی، ص: ۱۸۸