کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 200
رنگین دنیا کی آمد اور اپنی قوم کی قدیم فاقہ کشی کو پہچان لیا تھا اس لیے آپ کو خوف تھا کہ جب وہ اسے دیکھیں تو مبادا اس کی رنگینیوں کے تابع نہ ہوجائیں ، پھر وہ ان پر ظلم کرنے لگے کیونکہ یہی وہ چیز تھی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں خوف دلایا تھا۔ [1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( فَوَ اللّٰہِ لَا الْفَقْرَ أَخْشٰی عَلَیْکُمْ وَلٰکِنْ أَخْشٰی عَلَیْکُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا کَمَا بُسِطَتْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ ، فَتَنَافَسُوْہَا کَمَا تَنَافَسُوْہَا وَتُہْلِکَکُمْ کَمَا أَہْلَکَتْہُمْ۔))[2] ’’اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں فقیری سے نہیں ڈرتا ہوں لیکن تمہارے بارے میں مجھے یہ خوف ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کر دی جائے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کر دی گئی تھی اور تم اسے حاصل کرنے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگو، جس طرح انہوں نے مقابلہ کیا، پھر دنیا تمہیں ہلاک کر دے جس طرح انہیں ہلاک کردیا۔‘‘ سیّدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے امت کی بیماری کی بہترین تشخیص کرلی تھی، اس لیے آپ نے اُمت کے لیے بہترین اور کامیاب دوا کا انتظام کردیا۔ عمر رضی اللہ عنہ ایک بلند پہاڑ تھے کہ جب دنیا آپ کو دیکھتی تو مایوس ہوجاتی اور پیٹھ پھیر کر بھاگتی۔ یہ آپ کی شخصیت ہی تھی جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( إِیْہَا یَابْنَ الْخَطَّابِ! وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا لَقِیَکَ الشَّیْطَانُ سَالِکًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَکَ فَجًّا غَیْرَ فَجِّکَ۔))[3] ’’بہت خوب اے ابن خطاب! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر شیطان راستہ چلتے تم سے مل جاتا ہے تو (راہ بدل کر) تمہارے راستہ کے علاوہ دوسرے راستہ پر چلنے لگتا ہے۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ یہ امت جن بڑے بڑے حوادث سے دوچار ہوئی ان کا ظہور عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ہوا، لہٰذا ان کمر توڑ حوادث کا بعد میں واقع ہونا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فراست، اور عمر رضی اللہ عنہ کے لیے تیارہ کردہ مجوزہ عہد نامہ کی سچائی پر ایک قوی دلیل ہے۔ استحقاق خلافت پر شرعی نصوص کے واضح اشارے: ٭ قرآنِ مجید میں سیّدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کے صحیح ہونے اور ان کی اطاعت کے وجوب پر واضح دلیل موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اعراب (بدویوں ) کے بارے میں اپنے نبی کو مخاطب کرتے
[1] تاریخ الإسلام، عہد الخلفاء، ذہبی، ص:۶۶۔۱۱۷، ابوبکر رجل الدولۃ، ص: ۹۹ [2] صحیح البخاری، الجزیۃ والموادعۃ، حدیث نمبر: ۳۱۵۸ [3] صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی، حدیث نمبر: ۳۶۸۳۔